السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کریم میں خاص قسم کی عورتوں کو پردے میں تخفیف کا حکم ہے، وہ کونسی عورتیں ہیں اور پردے میں تخفیف سے کیا مراد ہے ؟ اس کی وضاحت کر دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ آیت جس میں پردے کے متعلق کچھ تخفیف کا حکم ہے ، اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: ’’ اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ، وہ اگر اپنی چادریں اتار لیا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم اگر وہ پرہیز ہی کریں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ ‘‘[1]
اس آیت کریمہ میں ’’ القواعد‘‘ سے مراد بوڑھی اور عمر رسیدہ عورتیں ہیں، جنہیں بڑھاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا ہو اور وہ ازدواجی زندگی کے کام کاج سے فارغ ہو چکی ہوں، نیز وہ اولاد جنم دینے کے قابل نہ رہی ہوں،جنکی جنسی خواہش اس قدر مر چکی ہو کہ اگر کوئی مرد انہیں دیکھے تو اس کے صنفی جذبات میں تحریک پیدا نہ ہو یعنی بوڑھی کھوسٹ عورتیں ، ایسی عورتوں سے ’’ وضع ثیاب‘‘ سے بدن کے کپڑے اتار دینا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان عورتوں سے حجاب کی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں اور کپڑے اتارنے سے مراد حجاب کے کپڑے اتار دینا ہے اور وہ دو ہیں:
(الف) ایک دوپٹہ ہے جس سے عورتیں اپنا سر اور گریبان ڈھانپتی ہیں اور اس کا تعلق گھر کے اندر کی دنیا سے ہے، یعنی بوڑھی عورتیں اگر گھر کے اندر اپنا دو پٹہ اتار دیں تو انہیں رخصت ہے۔
(ب) بڑی چادر ، جس کے ذریعے باہر نکلتے وقت اپنی زیب و زینت کو ڈھانپا جاتا ہے، بوڑھی عورتوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ گھر سے باہر نکلتے وقت بڑی چادر سے پورے جسم کو ڈھانپ کر نکلیں۔
قرآن کی ہدایت کے مطابق یہ رخصت بھی صرف اس صورت میں ہے جب انہوں نے سنگھار اور میک اپ وغیرہ نہ کیا ہو، اگر ایسی صورت ہو اور انہیں اپنی زیب و زینت کا اظہار مقصود ہو تو پھر انہیں یہ رخصت نہیں ملے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود بناؤ سنگھار کے ذریعے اپنی ’’ حیثیت ‘‘ کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو پردہ میں تخفیف سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گی بلکہ انہیں گھر کے اندر دوپٹہ اور باہر نکلتے وقت بڑی چادر یا برقعہ اوڑھنا ہو گا اور انہیں مکمل پردہ کرنا ہو گا۔
قرآن کریم نے یہ بھی تلقین کی ہے کہ اگر بڑی بوڑھی عورتیں اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائیں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے دیکھنے والے تمام بوڑھے یا متقی نہیں ہوتے بلکہ عرب کا محاورہ ہے:
’’ ہر گری پڑی چیز کو کوئی اٹھانے والا ضرور ہوتا ہے۔‘‘ ہو سکتا ہے کوئی شہوت کا مارا ہو ااوباش ان سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دے، لہٰذا بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت کا استعمال موقع و محل کا لحاظ رکھ کر کریں، بصورت دیگر وہ اس رخصت پر عمل نہ کریں یہی بات ان کے حق میں اور معاشرہ کے حق میں بہتر ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ دور حاضر میں اگر بہت بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ کا استعمال کریں تو یہ زیادہ بہتر اور عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] النور : ۶۰۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب