السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری دو ماہ قبل شادی ہوئی ہے ، میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ جب گھر میں میرے بھائی ، ماموں یا چچا آئیں تو ان سے احوال گیری کر لیا کرو، لیکن اس پر دینداری کا غلبہ ہے جس کی بنا پر وہ اس طرح مزاج پرسی کرنے کو شرعی پردہ کے خلاف سمجھتی ہے، مجھے اس کی دینداری کی وجہ سے سخت امتحان کا سامنا کرنا پر رہا ہے، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، ممکن ہے کہ میری طرح دیگر قارئین بھی اس قسم کی آزمائش سے دو چار ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے خاوند کو قیم یعنی گھر کا سربراہ کہا ہے۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کو اس کی بیوی کے لئے جنت یا دوزخ قرار دیا ہے۔[2]
شریعت نے نیک بیوی کو بھی بہت اہمیت دی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ دنیا کا بہترین متاع انسان کی نیک بیوی ہے۔ [3]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس انسان کو نیک بیوی مل گئی اسے گویا دنیا و آخرت کی خیر و برکت مل جاتی ہے۔ [4]
بہر حال دین اسلام میں اچھے خاوند اور نیک بیوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے لیکن افسوس کہ فریقین کی طرف سے اس سلسلہ میں افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ہم اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے اتفاقاً یہ سوال سامنے آ گیا، لہٰذا اس کے جواب میں ہماری کچھ گزارشات ہدیہ قارئین ہیں:
اللہ تعالیٰ نے سورۂ تحریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے مقابلہ میں متبادل بیویوں کی جن صفات کا ذکر کیا ہے ان میں علم کے بجائے عمل و کردار کو نمایاں کیا گیا ہے، ویسے بھی جن بیویوں کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہو اور وہ عمل و کردار سے عاری ہوں تو ان میں خادمیت کے بجائے مخدومیت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے جو گھریلو زندگی کےلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ہمارے ہاں گھریلو عائلی زندگی کے تنازعات میں مسئلہ خدمت ہی زیادہ کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر ساس اپنی بہو کو پاؤں کا جوتا خیال کرتی ہے جبکہ بیوی یہ سمجھتی ہے کہ میرا نکاح جس خاوند سے ہوا ہے وہی مجھ سے واجبی سی خدمت لینے کا روادار ہے، اس سے گھریلو جھکڑے جنم لیتے ہیں اور زندگی اجیرن اور زہر کی طرح کڑوی بن جاتی ہے۔
ہمارے معاشرہ میں دینی تعلیم سے آراستہ لڑکیاں جب شادی کے بعد اپنے خاوند کے گھر جاتی ہیں تو ان کے جذبہ دینداری کو خوب کچلا جاتا ہے اور بات بات پر ان کی دینداری کو ہدف تنقید بنایاجاتا ہے۔ مجھے کئی ایک ایسی بچیوں کے فون آتے ہیں ، جس میں وہ اپنی اس آزمائش کا واویلا کرتی ہیں، ایک لڑکی جو پردے کی پابند ہوتی ہے شادی کے بعد اس کے دیور اس کی چادر تار تار کر دیتے ہیں اور خاوند دیوث بن کر کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا ہوتا ہے، ایک لڑکی جس کا خاوند گھر سے باہر ہے اور وہ اس کی عدم موجودگی میں سادگی کے ساتھ زندگی کے ایام گزارتی ہے ، زیور اور بھڑکیلا لباس نہیں پہنتی تو خاوند کی طرف سے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ تم میری عدم موجودگی میں بھی زیب و زینت سے آراستہ رہا کرو تاکہ مجھے اپنے بھائیوں کی طرف سے طعنے وغیرہ نہ ملیں۔
دوسری طرف کچھ تعلیم یافتہ ایسی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں کہ شادی کے بعد ان کا علم انہیں غرور و تکبر میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ وہ کسی رشتہ دار کی مزاج پرسی کرنے کو عار خیال کرتی ہیں بلکہ اسے اپنی دینداری کے خلاف سمجھتی ہیں جیسا کہ سوال میں اس کاذکر کیا گیا ہے، اگر کوئی عورت اپنی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرتےہوئے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کی حال گیری اور مزاج پرسی کرتی ہے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، اگر اپنی مصنوعی دینداری کو قائم رکھتے ہوئے ترش روئی اور قطع تعلقی کا مظاہرہ کیا جائے تو اس رویے کے منفی اثرات بھی بر آمد ہو سکتے ہیں، بلکہ بیسیوں واقعات ہمارے علم میں ہیں کہ خاوند نے اپنی بیوی کو شک مزاجی بلکہ بے مروتی کے پیش نظر اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا جبکہ ہماری اسلاف خواتین کےایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ شب عروسی کے بعد خود دلہن نے ولیمہ کے لئے کھانا تیارکیا اور خود ہی مہمانوں کے ہاں اسے پیش فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابو اُسید ساعدی رضی اللہ عنہ کی جب شادی ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لئے دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کیا، اس وقت ان کی دلہن نے ہی کھانا تیار کیا اور اسے مہمانوں کےلیے پیش کیا ۔ [5]
بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:’’ اس دن دلہن ہونے کے باوجود ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی ان مہمانوں کی خدمت گزار تھی۔ ‘‘[6]
اس حدیث کے پیش نظر ہیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہیے، اپنے پردے کےتحفظ کے ساتھ اگر مہمانوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ مزاج پرسی کر لی جائے تو شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور نہ ہی اسلام اس قسم کے خشک زہد کی اجازت دیتا ہے۔ میرے علم میں چند گھرانے ایسے بھی ہیں کہ وہ بیوی کے خشک رویے کے پیش نظر انتہائی قریبی رشتے داروں سے کٹ گئے ہیں اور آپس میں تعلقات بھی خرب ہو گئے۔ ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ کچھ خاوند سہل پرست اور کچھ انتہا پسند بھی ہوتے ہیں، ان کی سہل پرستی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنی بیوی کو حکم دیتےہیں کہ تو نے میرے فلاں دوست سے پردہ نہیں کرنا ہے اور میرے فلاں رشتہ دار کے سامنے کھلے منہ آنا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہ اجازت نہ تھی کہ کھلے بندوں ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کریں بلکہ انہیں یہ حکم تھا: ’’ جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ ‘‘[7]
آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ پردہ تو آنکھوں اور دل کا ہونا چاہیے جبکہ اللہ تعالیٰ پردے کی علت اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے۔ ‘‘[8]
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شرعی پردے سے مرد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے محفوظ اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ خاوند کے چھوٹے بڑے بالغ بھائیوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ان کے ساتھ بے تکلف ہونے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو ۔‘‘یہ سن کر کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دیور تو موت ہے۔‘‘ [9]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کے بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ دار بیوی کے لئے محرم نہیں ہیں لہٰذا عورت کو چاہیے کہ اپنی عزت و آبرو کے تحفظ کے پیش نظر ان سے اختلاط نہ کرے بلکہ خلوت و تنہائی سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ ہمارے ہاں معاشرتی بگاڑ کی ایک وجہ خاوند کا دینی معاملات میں انتہائی تشدد بھی ہے، اس کی والدہ اور دولہا کا دوست جو اس نکاح میں واسطہ تھا، بیٹھ کر گئے، لڑکی کے گھر جانے کے بجائے مسجد میں ڈیرہ لگایا اور وضو کی ٹوٹیوں سے پانی پیا پھر سادگی کے ساتھ مسجد میں نکاح ہوا۔ دلہا میاں اپنے ساتھ دلہن کے لئے دھلے ہوئے کپڑے لے کر گیا تھا وہ کپڑے دلہن کو پہنا دیے گئے اور چاند گاڑی کی ایک سیٹ جو خالی رکھی گئی تھی، اس پر اسے بٹھا کر اپنے گھر لے آئے، اس نکاح کا علاقہ بھر میں بہت چرچا ہوا لیکن اس نکاح کا دوسرا رخ جو انتہائی تکلیف دہ اور روح فرسا تھا وہ یہ کہ دو ماہ بعد لڑکی کا والد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیٹی اپنے سسرال جانے کے لئے آمادہ نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو، یہ مجھے منظور ہے لیکن میں ان کے ہاں نہیں جانا چاہتی۔ میں نے اس لڑکی کو اپنے گھر بلایا اور اپنی اہلیہ مرحومہ کے حوالے کر دیا کہ وہ اسے اپنے سسرال جانے پر آمادہ کرے۔ کیونکہ نکاح کا بندھن کوئی بجلی کا بلب نہیں کہ ایک کی جگہ دوسرا لگا کر کام چلا لیا جائے، اہلیہ نے بہت سمجھایا لیکن لڑکی کسی بھی طرح سسرال جانے پر آمادہ نہ ہوئی، آخر کار یہ کمان میں نے اپنے ہاتھ میں لی اور سسرال کے ہاں نہ جانے کی وجہ معلوم کرنا چاہی، لڑکی نے بتایا کہ سسرال کے ہاں صرف تین افراد ہیں، ایک میرے میاں دوسرے اس کے چھوٹے بھائی اور تیسری اسکی والدہ لیکن وہاں مجھ پر پردہ کے سلسلہ میں اس قدر سختی کی جاتی ہے گھر میں دوپٹہ یا چادر اوڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ مجھے ایک موٹا کھیس دیا گیا ہے کہ گھر میں بھائی کی موجودگی میں اسے اپنے اوپر لینا ہے، اب میں گھر میں اس قدر دلبرداشتہ ہوں کہ مجھے موت قبول ہے لیکن وہاں نہیں جاؤں گی، دلہا سے طلاق لے کر لڑکی کی جان بخشی کرنا پڑی کیونکہ دلہا میاں اعلیٰ نسل کے مسلمان ہونےکی بنا پر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور وہ اس میں کسی طرح سے نرمی کرنے پر آمادہ نہیں تھے، آخر یہ کون سا اسلام ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں؟ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ’’ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ آپ کے ساتھ کبھی ایک انداز پر گذر بسرنہیں کرے گی اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ٹیٹرھے پن کے ساتھ ہی اس سے فائدہ حاصل کرو اور اگر تم نے اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو تم اسے توڑ بیٹھو گے اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔[10]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کوئی مومن شوہر اپنی مومن بیوی سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی عادت اسے ناپسند ہے تو اسے اس کی کوئی دوسری عادت پسند بھی ہو گی ۔ ‘‘[11]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک خاتون کو اس طرح تلقین فرمائی کہ جو عورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ [12]
ہماری اس دراز نفسی کا مطلب یہ ہے کہ بیوی خاوند دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور دین اسلام میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ (آمین)
[1] النساء : ۳۴۔
[2] مستدرك حاکم ص ۱۸۹ ج ۲۔
[3] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۳۶۷۔
[4] شعب الایمان ص ۲۳۳ج۴۔
[5] صحیح البخاري، النکاح: ۵۹۸۲۔
[6] صحیح البخاري ، النکاح : ۵۱۸۳۔
[7] الاحزاب: ۵۳۔
[8] الاحزاب: ۵۳۔
[9] صحیح البخاري، النکاح: ۵۲۳۲۔
[10] صحیح مسلم، الرضاع: ۳۶۴۳۔
[11] صحیح مسلم، الرضاع: ۳۶۴۵۔
[12] سنن الترمذي، الرضاع: ۱۱۶۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب