سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(423) خصی جانور کی قربانی

  • 20686
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3812

سوال

(423) خصی جانور کی قربانی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی میں خصی جانور ذبح کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خصی جانور کی قربانی ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی اور نر دونوں قسم کے جانور بطور قربانی ذبح کرنا ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا مینڈھا قربان کیا کرتے تھے جو سینگوں والا نر ہوتا تھا۔[1] اس طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قربانی کے دن دو مینڈھے ذبح کیے جو سینگوں ولاے چتکبرے اور خصی تھے۔ [2] خصی جانور کے بارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث مروی ہیں۔[3]

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خصی جانور کی قربانی درست ہے، اسے عیب شمار نہیں کیا جاتا۔ دراصل کسی جانور کو خصی کرنے کے مثبت اور منفی دو پہلو ہیں، مثبت پہلو یہ ہے کہ خصی جانور کا گوشت عمدہ اور بہتر ہوتا ہے جبکہ غیر خصی جانور کے گوشت میں ایک ناگوار سی بو پیدا ہو جاتی ہے جس کے تناول میں تکدر پیدا ہوتا ہے اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ جانور کو خصی کرنے سے اس کی فحولیت ( نر ہونا) ختم ہو جاتا ہے اور وہ افزائش نسل کے قابل نہیں رہتا ۔

قربانی کے متعلق مثبت پہلو یہ ہے کہ جانور کو خصی کرنے سے اس کے گوشت میں عمدگی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ قربانی کے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہونے سے اس کے گوشت کی عمدگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘[4]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس امر کی صراحت کی ہے کہ جانور کو خصی کرنے سے اس کا گوشت عمدہ ہو جاتا ہے اور قربانی کے لئے یہ کوئی عیب نہیں ہے۔ [5]

قربانی کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اس لئے قربانی کا جانور واقعی بے عیب اور تندرست ہونا چاہیے۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایک ایسے عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے جو قربانی کےلئے رکاوٹ کا باعث ہیں تاہم قربانی کے لئے جانور کا خصی ہونا کوئی عیب نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کو قربانی کے لئے قطعی طور پر منتخب نہ فرماتے ۔ چنانچہ احادیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے مینڈھوں کی قربانی دیتے جو خصی اور گوشت سے بھرپور ہوتے تھے۔ [6]

اس بناء پر کچھ لوگوں کا ان دنوں پروپیگنڈا کرناکہ خصی جانور کی قربانی ناجائز ہے بد دیانتی پر مبنی ہے۔ اس وضاحت کے بعد ہم جانور کو خصی کرنے کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہیں۔ جانور کو خصی کرنے کے متعلق علمائے متقدمین میں اختلاف ہے، ایک گروہ اس عمل کو مطلق طور پر حرام کہتا ہے خواہ وہ جانور حلال ہو یا حرام۔جبکہ کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ خصی کرنے کی حرمت صرف حرام جانوروں سے متعلق ہے، ان کے نزدیک حلال جانور کو خصی کرنا جائز ہے۔ جو حضرات مطلق طور پر حدیث کے قائل ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:

٭           اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے متعلق ابلیس لعین کا ایک طریقہ واردات بایں الفاظ بیان ہوا ہے: ’’ میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ میرے کہنے پر ضرور اللہ کی تخلیق میں بگاڑ پیدا کریں گے۔ ‘‘[7]

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد جانوروں کا خصی کرنا ہے۔ [8]

٭ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور دیگر جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [9]

٭ حضرت نافع ، جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ خصی کرنے کے عمل کو مکروہ خیال کرتے تھے۔[10]

٭حضرت عکرمہ رحمہ اللہ تابعی جانوروں کے خصی کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ [11]

دوسرے حضرات کی طرف سے مذکورہ دلائل کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ آیت کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات کسی صحیح، ضعیف اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے۔جہاں تک سلف کے اقوال کا تعلق ہے تو اس کے متعلق حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما ،حسن بصری، مجاہد،قتادہ اور سعید بن مسیب  رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے کہ وہ لوگ شیطان کے کہنے پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرائیں گےجیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تفسیر میں ان اقوال کو نقل فرمایا ہے۔ [12]

جب سلف صالحین سے آیت مذکورہ کی مختلف تفاسیر منقول ہیں تو اس کی تفسیر میں جانوروں کو خصی کرنے کی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ چونکہ اس کی تفسیر میں کوئی مرفوع حدیث موجود نہیں ، لہٰذا ’’ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘اللہ کے دین میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کے پیش نظر آیت مذکورہ میں’’ خلق اللہ ‘‘ سے مراد اللہ کا دین ہی ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ [13]

مسند امام احمد کے حوالے سے جو مرفوع حدیث بیان کی جاتی ہے وہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی کیونکہ اس میں ایک راوی عبد اللہ بن نافع ضعیف ہے۔ اس کی تفصیل مسند احمد کے حاشیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ [14]

جب ہم علمائے متقدمین کو دیکھتے ہیں تو ان میں بیشتر حضرات جانوروں کو خصی کرنے کے قائل اور فاعل ہیں، چنانچہ حضرت بشیر کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے دور حکومت میں خود مجھے حکم دیا تھا کہ میں ان کے خچر کو خصی کروں۔[15]

حضرت طاؤس رحمہ اللہ نے اپنے اونٹ کو خصی کروایا تھا نیز عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر نر جانورکے کاٹنے یا اس کے نقصان کا اندیشہ ہو تو اسے خصی کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [16]

ہشام بن عروہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان کے والد عروہ بن زبیر نے اپنا ایک خچر خصی کرایا تھا۔[17]

ان اقوال کے پیش نظر یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ کسی ضرورت کے پیش نظر جانور کو خصی کیا جا سکتا ہے لیکن بلا وجہ یہ عمل مکروہ اور نا پسندیدہ ہے جیسا کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ جب کوئی واقعی ضرورت درپیش ہو تو جانور کو خصی کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے تابعین کرام سے یہ اقوال بیان کئے ہیں۔‘‘[18]

مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی جانور کو قربانی کے لئے خصی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کا گوشت عمدہ ہو جاتا ہے اور جن روایات میں امتناعی حکم ہے اسے ان جانوروں کے متعلق محمول کیا جائے جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا یا اس سے جانوروں کو بلاوجہ خصی کرنا مراد ہے۔

بہر حال خصی جانور کی قربانی بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ خصی ہونا ان عیوب سے نہیں جو قربانی کےلئے رکاوٹ کا باعث ہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا: ’’ امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ ‘‘[19]


[1] ترمذی، الاضاحی : ۱۴۹۶۔

[2] ابو داود، الصحابه۲۷۹۵۔   

[3] ابن ماجه الاضاحی:۳۱۲۲۔

[4] فتح الباري ص ۷ ج۱۰۔

[5] سنن البیھقي ص ۲۵ ج۱۰۔

[6] مسند أحمد ص ۱۹۶ ج ۵۔

[7] النساء : ۱۱۹۔

[8] تفسیر ابن کثیر ص ۶۱۲ ج۱۔

[9] مسند أحمد ص۲۴ج۲۔

[10] موطا إمام مالك ص ۹۴۸ ج۲ ح ۲۷۲۹۔

[11] مصنف ابن أبي شیبة ص ۲۲۶ ج۱۲۔

[12] تفسیر ابن کثیر ص ۶۱۲ج۱۔

[13] سنن البیھقي ص ۲۵ ج۱۰۔

[14] مسند أحمد : ۴۷۶۹۔

[15] سنن البیھقي ص ۲۵ج۱۰۔

[16] شرح معانی الآثار ص ۳۸۳ ج۲۔

[17] مصنف ابن أبي شیبة ص ۲۲۶ ج۱۲۔

[18] سنن البیھقي ص ۲۶ ج۱۰۔

[19] مسائل إمام أحمد و إسحاق : ۲۸۶۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:370

محدث فتویٰ

تبصرے