سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(418) عقیقہ میں گائے ذبح کر کے اس میں حصے رکھنا

  • 20681
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1303

سوال

(418) عقیقہ میں گائے ذبح کر کے اس میں حصے رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی بچے کے عقیقہ میں گائے ذبح کی جا سکتی ہے، کیونکہ بعض دفعہ مہمان زیادہ ہوتے ہیں اور بکرے کا گوشت ان کے لئے ناکافی ہوتا ہے ، نیز اگر گائے میں د و لڑکوں اور تین لڑکیوں کا عقیقہ کر دیا جائے تو کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث میں عقیقہ کے لئے جن جانوروں کے ذبح کرنے کا ذکر ملتا ہے، وہ بکری اور دنبہ وغیرہ ہے۔ یعنی لڑکے کی طرف سے دو چھوٹے جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک چھوٹا جانور ذبح کیا جائے ، جیسا کہ حضرت ام کرز کعبیہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لڑکے کی طرف سے دوہم پلہ بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ ‘‘[1]

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے دو، دو دنبے ذبح کئے تھے۔ [2]

ان احادیث کا تقاضا ہے کہ عقیقہ میں چھوٹے جانور یعنی بکری ، دنبہ اور چھترا وغیرہ ذبح کیا جائے۔ اگرچہ بعض اہل علم نے اونٹ اور گائے کے بطور عقیقہ ذبح کرنے کی اجازت دی ہے لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ عقیقہ میں بڑے جانور گائے اور اونٹ وغیرہ ذبح نہ کئے جائیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس سلسلہ میں کراہت منقول ہے ۔ چنانچہ جب حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے عقیقہ میں اونٹ ذبح کیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب اس امر کی اطلاع ملی تو آپ نے اعوذ باللہ پڑھ کر اپنی کراہت کا اظہار فرمایا۔[3]

اس بناء پر عقیقہ میں بڑا جانور ذبح کرنا پھر اس میں حصے رکھنا انتہائی محل نظر ہے۔ اگر مہمان زیادہ ہیں تو ان کے ساتھ مزید بکروں کو ذبح کیا جا سکتا ہے یا بطور عقیقہ دو بکرے ہی ذبح کئے جائیں البتہ مہمان نوازی کے طور پر گائے یا اونٹ ذبح کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ہمارا رجحان یہ ہے کہ عقیقہ کے متعلق سنت نبوی کو ملحوظ رکھا جائے، اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اس کی خلاف کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد ، الضحایا : ۲۸۳۲۔

[2] سنن النسائي ، العقیقة : ۴۲۲۴۔

[3] سنن البیھقي ص ۳۰۱ ج۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:367

محدث فتویٰ

تبصرے