سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(407) بھینس کی قربانی

  • 20670
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2251

سوال

(407) بھینس کی قربانی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے علاقہ میں بھینس کی قربانی کی جاتی ہے اور اس کے جواز میں دلائل بھی دیئے جاتے ہیں ، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مویشی قسم کے چار پائے جانور ذبح کئے جائیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور ہم نے ہر امت کےلئے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے چوپاؤں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ [1]

اس قسم کی وضاحت سورۃ الحج کی آیت نمبر ۲۸ میں بھی ہے:

ایک دوسرے مقام پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ چوپایوں کے نر مادہ آٹھ جوڑے ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ کل آٹھ جوڑے (اقسام ) ہیں: بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو۔ ‘‘[2]

’’اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو۔ ‘‘[3]

ہمارے رجحان کے مطابق گائے، اونٹ بھیڑ اور بکری کی قربانی کرنا چاہیے ، بھینس کی قربانی سے اجتناب ہی بہتر ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے جو حضرات بھینس کی قربانی کو جائز خیال کرتے ہیں وہ درج ذیل تین دلائل پیش کرتےہیں:

1  بھینس گائے کی ایک بڑی قسم ہے۔  2  مسئلہ زکوٰۃ میں بھینس کو گائے کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔

3  ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ بھینس کی قربانی میں سات حصے دار ہو سکتے ہیں۔ لیکن علمی اعتبار سے ان دلائل کی کوئی حیثیت نہیں ہے جیسا کہ درج ذیل وضاحت سے معلوم ہوتا ہے:

٭           بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے کیونکہ بھینس کے دودھ سے برآمد ہونے والا مکھن سفید اور گائے کا مکھن پیلی رنگت میں ہوتا ہے۔٭  بھینس کے سینگ چوڑی دار اور خوبصورت ہوتے ہیں جبکہ گائے کے سینگ کبھی چوڑی دار نہیں ہوتے۔ ٭  بھینس گندے پانی اور کیچڑ میں بیٹھ جاتی ہے جبکہ گائے ایک صاف ستھرا جانور ہے جو کیچڑ میں نہیں بیٹھتا۔

٭  سب سے نمایاں فرق اس کے بچے کی پیدائش کا ہے کہ گائے نوماہ بعد بچہ جنم دیتی ہے جبکہ بھینس گیارہویں ماہ بچے کو جنتی ہے۔

٭  گائے کھیتی باڑی میں استعمال ہوتی ہے جبکہ بھینس اس کام کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔

درج بالا وجوہات کی بنا پر بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا سینہ زوری ہے۔

٭ اس میں شک نہیں ہے کہ مسئلہ زکوٰۃ میں بھینس کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے لکھا ہےکہ مسئلہ زکوٰۃ میں گائے اور بھینس کو جمع کیا جا سکتا ہے ۔[4]

لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے قربانی کے باب میں گائے کے ساتھ بھینس کا ذکر نہیں کیا ہے، دراصل کچھ مسائل احتیاط کے اعتبار سے دو پہلو رکھتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا ہوتا ہے، بھینس کا معاملہ بھی اسی طرح ہے اس کے دو پہلو ہیں: مسئلہ زکوٰۃ میں زکوٰۃ دینے میں احتیاط ہے اور مسئلہ قربانی نہ دینے میں احتیاط ہے کیونکہ اس کی قربانی کے متعلق علماء امت کا اتفاق نہیں، جن حضرات نے بھینس کو گائے کی قسم قرار دیا ہے وہ زکوٰۃ کے اعتبار سے صحیح ہو سکتا ہے ۔بصورت دیگر یہ دونوں الگ الگ اجناس ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کر دی ہے۔

اس سلسلہ میں مسند فردوس کے حوالے سے جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ بھینس کی قربانی میں سا ت حصے داروں کی شراکت جائز ہے، اس کی سند کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک جس حدیث کی کوئی سند نہ ہو، وہ مجہول اور ناقابل اعتبار ہے، جب تک حدیث کے راویوں کی عدالت و ثقاہت معلوم نہ ہو اسے بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔

بہر حال جن اہل علم کو مذکورہ بالا دلائل پر اطمینان ہے ، اگر وہ بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے ، البتہ بھینس کے بجائے گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ، عمل اور تقریر سے ثابت ہے۔ لہٰذا سنت کے مطابق اونٹ، گائے ، بھیڑ ( دنبہ) اور بکری کو بطور قربانی ذبح کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کیا جائے۔ ( واللہ اعلم)


[1] سورة الحج: ۳۴۔

[2] سورة الانعام: ۱۴۳۔

[3] سورة الانعام: ۱۴۴۔

[4] موطا امام مالك ، کتاب الزکوٰة باب ما جاء في صدقة البقر۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:359

محدث فتویٰ

تبصرے