سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(389) مطلقہ عورت سے سامان واپس لینا

  • 20650
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-08
  • مشاہدات : 1180

سوال

(389) مطلقہ عورت سے سامان واپس لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے اپنے بیٹے کی شادی کی تھی، حق مہر ایک ہزار روپیہ تھا جو موقع پر ہم نے ادا کر دیا تھا ، اس کے علاوہ ہم نے پندرہ تولے طلائی زیور بھی اسے دیئے تھے، اب حالات کی سنگینی کی وجہ سے بیٹے نے طلق دے دی ہے، کیا زیورات اسے واپس لینے کا حق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے معاشرہ میں مروج ہے کہ نکاح کے موقع پر بیوی کو معمولی سا حق مہر دیا جاتا ہے اور حکومتی ٹیکس سے بچنے کے لئے حق مہر کے خانہ میں تھوڑا سا حق مہر لکھا جاتا ہے، اس کے علاوہ اور بہت کچھ دیا جاتا ہے جو تحریر میں نہیں آتا، صورت مسؤلہ میں یہی نظر آتا ہے کیونکہ جو صاحب پندرہ تولے طلائی زیورات دینے کی طاقت رکھتے ہیں، ان کے لئے ایک ہزار حق مہر اونٹ کے منہ میں زیرہ رکھنے کے مترادف ہے، اگر انہوں نے طلائی زیورات بھی بطور حق مہر دیئے ہیں تو اب ان کی واپسی کا مطالبہ جائز نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تم کسی بیوی کی جگہ دوسرے بیوی بدل کر لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں کچھ بھی واپس نہ لو۔ ‘‘[1]

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ مہر کی کوئی حد معین نہیں بلکہ خاوند اپنی حیثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے ، لیکن جو کچھ دیا طلاق کے بعد اسے واپس لینے کا مجاز نہیں، ویسے بھی اس کی مردانگی کے خلاف ہے۔ اگر حق مہر کے علاوہ بیوی کو بطور تحفہ مذکورہ طلائی زیورات دیئے ہیں تب بھی انہیں واپس نہیں لے سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہبہ کر کے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرتا ہے پھر اسے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ [2]

اس بنا پر صورت مسؤلہ کے متعلق ہمارا رجحان یہ ہے کہ اگر طلائی زیورات مہر کا حصہ ہیں تو اسے واپس لینا جائز نہیں اور اگربطور ہدیہ دیئے ہیں تو بھی انہیں واپس نہیں لیا جا سکتا ، زیورات دینے کے دو ہی مقاصد معلوم ہوتے ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی مقصد بظاہر معلوم نہیں ہوتا۔ ( واللہ اعلم)


[1] النساء : ۲۰۔

[2] صحیح بخاری ، الہبہ : ۲۶۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:343

محدث فتویٰ

تبصرے