سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(388) شادی کے بعد بیوی سے قطع تعلقی

  • 20649
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 837

سوال

(388) شادی کے بعد بیوی سے قطع تعلقی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی شادی کے چند سال بعد اپنی بیوی سے ناراض ہو کر کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ازداجی تعلقات نہیں رکھنا چاہتا مگر تمہارے ہر قسم کے اخراجات پورے کرتا رہوں گا، یہ میرا عمر بھر کا فیصلہ ہے، اس بات کو دس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، کیا ایسا کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے شادی کے بندھن کو اپنی معرفت کی ایک نشانی قرار دیا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ( ترجمہ) ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور الفت پیدا کر دی ، یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ [1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خاص تلقین فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ عورتوں کے ساتھ خیر و بھلائی سے پیش آؤ۔ ‘‘[2]  نیز فرمایا: ’’ کوئی مومن شوہر اپنی اہل ایمان بیوی سے بغض نہ رکھے ، اگر اس کی کوئی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو کوئی دوسری عادت پسند بھی ہے۔‘‘ [3]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کو انسان کے بہتر ایمان کی علامت قرار دیا ہے ، آپ نے فرمایا: ’’ مومنوں میں سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق والا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ مہربان ہو۔ ‘‘ [4]

بیوی کو بھی تلقین فرمائی کہ وہ اپنے خاوند کی اطاعت گزار اور فرمانبردار رہے، فرمان نبوی ہے:’’ جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی ۔ ‘‘[5] 

صورت مسؤلہ میں بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ رویے پر نظر ثانی کرے، آخر معاملہ اس حد تک کیوں پہنچا ہے، شریعت اس صورت حال کو قطعاً پسند نہیں کرتی کہ خاوند اپنی بیوی سے اس حد تک لا تعلق ہے۔ بہر حال اس لا تعلقی سے طلاق واقع نہیں ہو گی ، جب تک خاوند خود طلاق نہ دے۔ ( واللہ اعلم)


[1] الروم:۲۱۔

[2] صحیح بخاری ، النکاح : ۵۱۸۶۔

[3] صحیح مسلم، الرضاع: ۳۶۴۳۔

[4] سنن الترمذی ، الایمان : ۲۶۱۲۔

[5] سنن الترمذی ، الرضاع : ۱۱۶۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:343

محدث فتویٰ

تبصرے