سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(386) طلاق اور معاہدہ طلاق

  • 20647
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 707

سوال

(386) طلاق اور معاہدہ طلاق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی سے ایک تحریری معاہدہ کیا ہے کہ اگر میں اسے طلاق دوں تو مبلغ بیس ہزار ریال سعودی ادا کروں گا، کیا صرف معاہدہ کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اور مجھے حسب معاہدہ مبلغ بیس ہزار سعودی ریال ادا کرنا ہوں گے یا عملی طور پر طلاق دینے سے طلاق ہو گی ، اس سلسلہ میں مجھے فتویٰ درکار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں اگر سائل نے صرف تحریری معاہدہ ہی کیا ہے اور عملی طور پر طلاق نہیں دی تو صرف معاہدہ کرنے سے طلاق واقع نہ ہو گی اور نہ ہی اسے کوئی رقم ادا کرنا پڑے گی کیونکہ یہ صرف ایک معاہدہ ہے جس پر عمل در آمد نہیں ہوا۔ معاہدہ طلاق اور عملی طلاق میں بہت فرق ہے، یہ ایسے ہی ہے جس طرح ایک آدمی کسی کمپنی میں کام کرنے کے لئے کوئی معاہدہ کرتا ہے اور اس میں درج ہوتا ہے کہ اسے کام کرنے کا اتنا معاوضہ دیا جائے گا ، اب ظاہر ہے کہ وہ حسب معاہدہ کام کرنے کے بعد معاوضہ کا حقدار ہو گا، بصورت دیگر صرف معاہدہ کرنے سے اسے کچھ نہیں ملے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا کہ اگر تم دنیا کا ساز و سامان چاہتی ہو تو میں تمہیں کچھ دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیتا ہوں اور اگر تم اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت کی طلبگار ہو تو تمہیں اللہ کے ہاں بہت اجر ملے گا۔ اس کی تفصیل سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۸۲ میں موجود ہے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا تو اس اختیار کو کچھ حیثیت نہ دی گئی اور نہ اسے کچھ شمار کیا گیا۔[1]

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ محض اختیار دینے کو طلاق شمار نہیں کیا گیا کیونکہ عملی طور پر طلاق نہیں دی گئی تھی۔ صورت مسؤلہ میں بھی صرف معاہدہ ہوا ہے، عملی طور پر طلاق نہیں دی گئی۔ لہٰذا صرف معاہدہ کرنے سے طلاق نہیں ہو گی اور نہ ہی سائل کے ذمے کسی قسم کی ادائیگی ضروری ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الطلاق : ۵۲۶۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:342

محدث فتویٰ

تبصرے