السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں کچھ لوگ لڑکی کو ملنے والا حق مہر خود وصول کرکے استعمال کر لیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے، قرآن و حدیث کی رو سے اس کا جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامہ میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے اور یہ حق اسے ہی ملنا چاہیے، تاہم کچھ قبائل ایسے ہیں جو لڑکی کا مہر خود استعمال کرتے ہیں ، جو شرعاً ناجائز ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔‘‘[1]
دور جاہلیت میں لوگ نکاح کے وقت لڑکی کا مہر خود لے لیتے اور اسے استعمال کر لیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس کی روک تھام کے لئے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں حضڑت عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ نے ایک انصاری عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کتنا مہر دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ’’ ایک کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا دیا ہے۔ ‘‘[2]
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہر عورت کا حق ہے اور عورت کو ہی دیا جاتا تھا البتہ اگر لڑکی ، اپنا حق کسی کو دے دیتی ہے تو اسے استعمال کرنے میں چنداں حرج نہیں ، وہ استعمال کرنے والا لڑکی کا والد ، بھائی یا خاوند ہی کیوں نہ ہو ، اسی طرح وہ لڑکی اپنے حق مہر سے کچھ معاف کر دے تو بھی جائز ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’ عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو، ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو شوق سے اسے خوش ہو کر کھاؤ ۔‘‘[3]
بہر حال مہر ، لڑکی کا حق ہے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں۔
[1] النساء : ۴۔
[2] صحیح بخاری ، النکاح : ۵۱۶۷۔
[3] النساء : ۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب