سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(382) طلاق کی نیت سے نکاح کرنا

  • 20643
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 662

سوال

(382) طلاق کی نیت سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی حصول علم کے لئے بیرون ملک جاتا ہے اور وہاں بے حیائی سے بچنے کے لئے معینہ مدت تک کے لئے کسی عورت سے شادی کر لیتا ہے ، اس کی نیت یہ ہے کہ جب تعلیم مکمل ہو جائے گی تو اسے طلاق دے دے گا لیکن وہ اپنی نیت کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کرتا ، کیا اس طرح نکاح کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کی نیت سے نکاح کرنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ ایسا کرنا مقاصد نکاح کے خلاف ہے، پھر نکاح بغرض طلاق کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

1۔  کہ آدمی نکاح کے وقت شرط لگائے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے گا، یہ نکاح متعہ کی ایک شکل ہے جسے شریعت نےحرام قرار دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے سال نکاح متعہ سے منع فرما دیا تھا۔ [1]

2۔ دوسری صورت میں جس طرح کہ سوال میں مذکور ہے کہ بوقت نکاح اس کی نیت رکھے اور بطور شرط بوقت نکاح اس کا ذکر نہ کرے تو ایسا کرنا بھی حرام ہے کیونکہ نیت میں مخفی بات بھی مشروط کردہ کی طرح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے ، ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہوتا ہے جو اس نے نیت کی۔ ‘‘[2]

نکاح حلالہ بھی اس لئے حرام ہے کہ وہ پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کی نیت سے نکاح کیا جاتا ہے، اگرچہ نکاح کے وقت اس کا ذکر نہ کیا جائے تاہم اس کی گندی نیت کی وجہ سے ایسا نکاح حرام ہے۔ جس طرح حلالہ کی نیت نکاح کو فسخ کر دیتی ہے اسی طرح متعہ کی نیت بھی نکاح کو فسخ کر دیتی ہے۔ نیز یہ نکاح اس لئے بھی حرام ہے کہ اس میں بیوی اور اس کے خاندان کو دھوکہ دیا جاتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی دھوکہ دہی سے منع فرمایا ہے ، اگر عورت یا اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہو جائے کہ یہ شخص ایک معینہ مدت تک کے لئے نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہوں گے ۔ کوئی شخص بھی اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس شرط پر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ، خود نکاح کرنے والا بھی اس قسم کے نکاح کے لئے اپنی بیٹی یا بہن کا انتخاب نہیں کرتا۔ بہر حال اس قسم کے نکاح میں سنگین قسم کا دھوکہ اور فراڈ ہے، لہٰذا اس قسم کے تمام کام حرام اور ناجائز ہیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری ، النکاح : ۵۱۱۵۔

[2] صحیح بخاری ، الوحی : ۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:339

محدث فتویٰ

تبصرے