سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(381) نمازی بیوی اور بے نماز خاوند

  • 20642
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 758

سوال

(381) نمازی بیوی اور بے نماز خاوند

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیوی مستقل طور پر نماز کی پابند ہے لیکن خاوند مستقل طور پر بے نماز ہے حتیٰ کہ عیدین کی نماز بھی نہیں پڑھتا، کیا ایسے حالات میں نکاح میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسے رشتہ کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو انسان مستقل طور پر بے نماز ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بلاشبہ آدمی کو کفر و شکر کے ساتھ ملا دینے والی چیز نماز کو چھوڑ دینا ہے۔ ‘‘[1]

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی : ’’ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ خواہ تمہیں کاٹ دیا جائے یا جلا دیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے اور جان بوجھ کر نماز ترک نہ کرو کیونکہ جو شخص جان بوجھ کر اسے ترک کرتا ہے وہ ملت سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘ [2]

حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا عہد ہے، جس نے اسے ترک کر دیا اس نے کفر کیا۔‘‘[3]

صحابہ کرام کا اس امر پر اتفاق تھا کہ تارک صلوٰۃ دائرہ اسلام سے خارج ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن شفیق فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے علاوہ کسی عمل کے ترک کو کفر قرار نہیں دیتے تھے۔[4]

کتاب و سنت کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ تارک صلوٰۃ کافر ہے، ایسے حالات میں ایک مسلمان خاتون کا اس کے ہاں رہنا شرعاً درست نہیں ، اگر کوئی شخص بالکل نماز نہیں پڑھتا حتیٰ کہ عیدین بھی نہیں پڑھتا تو ضروری ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اگر وہ توبہ کر کے نماز شروع کر دے تو صورتِ مسؤلہ میں ان کا میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا درست ہے، اگر وہ توبہ نہیں کرتا اور اپنی ترک نماز کی روش پر قائم ہے تو ایسے حالات میں ان کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے کیونکہ اسلام اور کفر یکجا جمع نہیں ہو سکتے۔  ( واللہ اعلم)


[1] صحیح مسلم، الایمان: ۸۲۔

[2] مجمع الزوائد ص ۲۱۶ج۴۔

[3] مسند امام احمد ص ۳۴۶ ج۵۔

[4] سنن الترمذی ، الایمان: ۲۶۲۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:338

محدث فتویٰ

تبصرے