سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(375) دینی لحاظ سے پسندیدہ شخص

  • 20636
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 637

سوال

(375) دینی لحاظ سے پسندیدہ شخص

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے قریبی رشتہ داروں میں ایک لڑکا حافظ قرآن ہے اور اخلاقی اعتبار سے بھی اچھا ہے، لیکن میرے والد گرامی اس کے ساتھ میرا نکاح کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، مجھے اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ میرا نکاح دینی لحاظ سے پسندیدہ شخص سے ہو جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نکاح کے متعلق اسلام کی ہدایات یہ ہیں کہ اپنی پسند کی بجائے دین کو ترجیح دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘ [1]

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کو دینی لحاظ سے لڑکی کی مصلحت کا خیال رکھنا چاہیے، وہ کسی صورت میں اپنی مصلحت کو پیش نظر نہ رکھیں۔ اگر قریبی رشتہ داروں میں کوئی ایسا لڑکا موجود ہے جو دینی اور اخلاقی اعتبار سے اچھا ہے اور لڑکی کا رجحان بھی اس کی طرف ہے تو والد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں کردے۔ ہاں اگر لڑکی ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے جو دینی اور اخلاقی طور پر بہتر نہیں تو والد کو یہ حق ہے کہ حق ولایت استعمال کرتے ہوئے ایسی شادی میں رکاوٹ بن جائے، اگر اس کی بیٹی دینی اور اخلاقی لحاظ سے کسی اچھے لڑکے کا انتخاب کرتی ہے تو اس کے والد کو برضاو رغبت قبول کر لینا چاہیے، اس کے درمیان میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے ایسا کرنا حرام ہی نہیں بلکہ خیانت اور گناہ بھی ہے۔ ایسا کرنے سے جو بھی فتنہ اور فساد پیدا ہو گا وہ اس کا ذمہ دار اور اللہ کے ہاں اس کے متعلق جوابدہ ہو گا۔

ہم اس اعتبار سے لڑکی کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے۔ وہ قطعاً ایسا قدام نہ کرے جو اس کی اپنی عزت و آبرو کے منافی ہو، اپنی والدہ کو درمیان میں لا کر والد کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دے، پھر اللہ کے حضور دعا کا سلسلہ جاری رکھے، اللہ تعالیٰ بہتر اسباب پیدا کرنے والا ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن الترمذی، النکاح : ۱۰۸۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:335

محدث فتویٰ

تبصرے