سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(370) جہیز کی شرعی حیثیت

  • 20631
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2613

سوال

(370) جہیز کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرہ میں بچی کی شادی کے موقع پر جہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جس کے پاس وسائل نہیں ہوتے وہ کسی سے قرض لے کر اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرتا ہے، اسلام، ہمارے لئے ایک نظام زندگی ہے، اس میں جہیز دینے یا لینے کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ جہیز عربی لفظ ’’ جہاز‘‘ سے ماخوذ ہے، احادیث میں یہ لفظ دو مفہوم میں استعمال ہوا ہے:

1             رخصتی کے موقع پر باپ کا اپنی بچی کو نیا گھر بسانے کے لئے کچھ سامانِ ضرورت دینا۔

2             دلہن کو شب زفاف کے لئے تیار کرنا اور اسے عمدہ لباس سے آراستہ کرنا۔

رخصتی کے موقع پر لڑکی کو جہیز دینا ایک معاشرتی مسئلہ ہے جسے ہم نے انتہاء پسندی کی سان پر چڑھا دیا ہے، ہمارے ہاں موجودہ جہیز کی صورت یہ ہے کہ بچی کو شادی کے موقع پر اسے لازمی چیز بنا لیا گیا ہے، خواہ کسی کے وسائل اس کے متحمل نہ ہوں اور اسے قرض پکڑ کر یہ ’’ فریضہ‘‘ سرانجام دینا ہوتا ہے۔ پھر ہم نے ضروریات زندگی کے علاوہ تمام تمدنی سہولتوں اور آسائشوں تک اسے وسیع کر دیا ہے خواہ لڑکے والوں کے ہاں اسے رکھنے کے لئے جگہ میسر نہ ہو ۔ نیز جو بچی جہیز کے بغیر سسرال جاتی ہے سسرال والے اس کا جینا محال کر دیتے ہیں، اسے ہر طرف طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہم نے اسے وراثت کے قائم مقام بنا لیا ہے اور اس بنیاد پر عورتوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا۔ کچھ حضرات اس کے برعکس دوسری انتہا پر ہیں ، وہ اسے بالکل حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک فطری بات ہے کہ والد جب اپنی لخت جگر کو شادی کے موقع پر گھر سے رخصت کرتا ہے تو حسب استطاعت کچھ سامان ضرورت دینادونوں کے لئے باعث فرحت و انبساط ہے۔ محدثین کرام نے اس مسئلہ کو اپنی کتب حدیث میں بیان کیا ہے چنانچہ امام نسائی نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ باب جھازالرجل ابنتہ‘‘ باپ کی طرف سے اپنی بیٹی کو(شادی کے موقع پر)سامان ضرورت دینا۔پھر حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چادر ، مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا جس میں روئی کے بجائے اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔[1]

ایک روایت میں مذکورہ سامان کے ساتھ چکی اور دو مٹکوں کا بھی ذکر ہے۔ [2]

ان روایات کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب انتہائی مفلس آدمی تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مدد کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا،جب وہ جوان ہوئے تو اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کر دیا،اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لئے ضروری سامان زندگی انہیں مہیا کر دیا گیا، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مالی حالت بھی انتہائی کمزور تھی چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر کفالت تھے، اس لئے آپ نے مذکورہ سامان ایک نیا گھر آباد کرنے کے لئے دیا، اس کا رائج الوقت جہیز سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ دور حاضر میں دولہا میاں کوئی غریب نہیں ہوتا کہ اس کا گھر بھاری بھر کم جہیز کے ذریعے سازو سامان سے بھر دیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تعاون تھا اور اس تعاون کے پیچھے جذبہ ہمدردی کار فرما تھا جبکہ ہمارے ہاں نہ تو تعاون مقصود ہوتا ہے اور نہ ہی ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے ، محض عزت نفس اور دولہا میاں کی طلب کو پورا کرنے کے لئے لاکھوں روپیہ جہیز کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سسرال کے ہاں جہیز کے سامان کو رکھنےاور سنبھالنے کے لئے جگہ بھی نہیں ہوتی یہ کس قدر ظلم وستم ہے کہ لڑکی والوں سے اپنی پسند کا جہیز لینے کے لئے ان کے ہاتھ میں لمبی چوڑی فہرست تھما دی جائے۔ ہمارے نزدیک لڑکے والوں کی طرف سے احسان مندی کے بجائے ان مطالبات کے ذریعے احسان فراموشی کا اظہار ہے، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو ’’قوام‘‘ کی حیثیت دی ہے، جہیز کا مطالبہ اس کے شیوۂ مردانگی کے بھی خلاف ہے۔ جہیز کے سلسلہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ سادگی کے ساتھ رخصتی کے وقت اگر کوئی اپنی بچی کو ضروریات زندگی دیتا ہے تو اس میں چنداں حرج نہیں، بشرطیکہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:

1             اسے ضروریات زندگی تک محدود رکھا جائے اور تمدنی سہولتوں اور آسائشوں تک وسعت نہ دی جائے۔

2             بقدر ضروریات دیا جائے اور چالیس ، چالیس گرمی اور سردی کے بستروں پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے۔

3             اسے شادی کا جزو خیال نہ کیا جائے کہ اس کے دیئے بغیر شادی نامکمل رہتی ہے۔

4             لڑکے والوں کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ نہ ہو بلکہ سرپرست اپنی خوشی سے جو دینا چاہے دے دے۔

5             خود سرپرست بھی حسب استطاعت دے ایسا نہ ہو کہ بچی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے زندگی بھر مقروض رہے۔

6             جو کچھ دینا چاہے نہایت سادگی اور خاموشی سے دے دیا جائے ، اسے فخر و مباہات کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔

7             اس سلسلہ میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے اور باقی بچوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔

8             اس سامان زندگی کے عوض بچی کو وراثت سے قطعاً محروم نہ کیا جائے۔

9             کوئی ناجائز چیز یا جس کا استعمال ناجائز ہو اسے جہیز میں نہ دیا جائے۔

بہر حال مبالغہ آمیزی، نمود و نمائش ، شہرت و ریاکاری سے اجتناب کرتے ہوئے فضولیات زندگی کے بجائے ضروریات زندگی کے پیش نظر اگر کوئی باپ یا سرپرست شادی کے وقت اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ سامان دیتا ہے تو اس پر شرعاً کوئی قدغن نہیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن نسائی ، النکاح : ۳۳۸۶۔

[2] مسند امام احمد ص ۱۰۴ ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:330

محدث فتویٰ

تبصرے