سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(365) شادی کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا

  • 20626
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 622

سوال

(365) شادی کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں غیر شادی شدہ ہوں،میں جس قسم کے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں وہ صاحب اولاد اور شادی شدہ ہے۔ کیا میں اس آدمی سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کر سکتی ہوں ، اس سلسلہ میں میری راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام افراط و تفریط سے بالاتر ہو کر اعتدال کی راہ پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے ، اس لئے ہمیں بھی زندگی گزارنے کے لئے اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس تمہید کے بعد ہم کہتے ہیں کہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نکاح کرنے کے لئے آدمی سے اس کی پہلی بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ( ترجمہ) ’’ کسی بھی عورت کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے برتن کو فارغ کر کے خود نکاح کرے بلکہ اس کے مقدر میں جو کچھ ہے وہ بہر حال اس کو مل کر رہے گا۔ ‘‘[1]

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ’’عورت کے لئے یہ حلال نہیں ‘‘ اس قسم کی شرط کے حرام ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ حلال کی نفی کرنا اس کے حرام ہونے کی صراحت ہے۔ اس سے مقصود عورت پر سختی کرنا ہے کہ وہ نکاح کے لئے اس قسم کی شرائط نہ لگائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہے، اس آدمی کو بھی چاہیے کہ وہ اس قسم کی شرائط کو خاطر میں نہ لائے۔ اگر حالات اجازت دیتے ہیں تو اس سے نکاح کرے، اس قسم کی ناجائز شرائط کا پورا کرنا ضروری نہیں۔ یہ بھی اس کے علم میں ہونا چاہیے کہ عورت کی طرف سے اس قسم کی شرائط اس کی غیرت کی وجہ سے ہوتی ہیں جو عمومی طور پر صنف نازک میں پائی جاتی ہے۔ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کو اس بات پر ختم کیا ہے اس کے مقدر میں جو کچھ ہے وہ بہر صورت اس کو مل کر رہے گا۔‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر اس نے اس قسم کا مطالبہ کیا اور اس پر اصرار کیا نیز اپنے نکاح کو اس شرط کے ساتھ مشروط رکھا تو یہ شرط واقع نہیں ہو گی بلکہ وہی کچھ ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔[2]

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اسے چاہیے کہ وہ نکاح کر لے ( کسی شرط سے مشروط نہ کرے) اس کے مقدر میں جو کچھ ہو گا وہ بہر حال اسے مل کر رہے گا۔‘‘ [3]

اس روایت کی روشنی میں ہم سائلہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر اسے کسی آدمی کا دین اور خلق پسند ہے تو کسی قسم کی شرط لگائے بغیر اس سے نکاح کرے، اللہ کے ہاں جو رزق اس کے مقدر میں لکھا ہے وہ بہر صورت اسے مل کر رہے گا، اس قسم کی شرائط لگانا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔  ( واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری ، النکاح: ۵۱۵۲۔

[2] فتح الباری ص ۹ج۲۷۵۔

[3] صحیح بخاری ، القدر: ۶۶۰۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:326

محدث فتویٰ

تبصرے