سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(362) مطلقہ کا دو ماہ کا حمل ضائع کروانا نکاح کی غرض سے

  • 20623
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 749

سوال

(362) مطلقہ کا دو ماہ کا حمل ضائع کروانا نکاح کی غرض سے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے ایک لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا، ہمیں بعد میں علم ہوا کہ وہ لڑکا غلط کار تھا، اس نے چھ ماہ بعد طلاق دے دی، جبکہ ہماری لڑکی دو ماہ سے حاملہ تھی، ہم چاہتے ہیں کہ صفائی کرا دی جائے تاکہ ہمیں دوسری جگہ نکاح کرنے میں دشواری نہ ہو، قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمایں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شریعت اسلامیہ میں نکاح ، اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے اور زندگی کا مضبوط بندھن ہے، اسے خوب غور و خوض اور سوچ و بچار کے بعد سر انجام دینا چاہیے۔ یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں کہ خراب ہونے کے بعد دوسرا پھر تیسرا لگا دیا جائے اور دنیاوی مفاد و ذاتی اغراض کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔ صورت مسؤلہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ا نتہائی جلد بازی میں یہ کام کیا گیا ہے، تاہم نکاح کے بعد ہمیں چاہیے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے شریعت کی خلاف ورزی ہو پھر ہماری شرمندگی کا بھی باعث بنے۔ لڑکی چونکہ دو ماہ سے حاملہ ہے اور اسے طلاق مل گئی ہے، اب عقد ثانی کے لئے وضع حمل کا انتظار کرنا ہو گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا حمل وضع ہو جائے۔‘‘[1]  

اب اپنی سہولت کے لئے حمل کو ضائع کرنا شرعی طور پر ناجائز ہے، اسلام ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا بلکہ قرآن کریم کی اس سلسلہ میں ایک واضح ہدایت ہے، ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’’ مطلقہ عورتوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہے اسے چھپائیں، انہیں ہر گز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔‘‘ [2]

اس سے معلوم ہوا کہ مادر رحم میں خلق شدہ بچے کو چھپانے کا حکم نہیں ، جب چھپانے کا حکم نہیں تو اسے ضائع ؎کر دینے کی اجازت کیونکر دی جا سکتی ہے، بہتر ہے کہ صلح کی کوئی صورت پیدا کی جائے چونکہ عدت کا دورانیہ خاصہ طویل ہے اس لئے شاید کوئی راستہ نکل آئے، اس سلسلہ میں والدین کی سوچ کو کسی بھی صورت میں درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔  ( واللہ اعلم)


[1] الطلاق: ۴۔

[2] البقرة: ۲۲۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:323

محدث فتویٰ

تبصرے