سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(358) خاوند کی وفات کے بعد عدت کا مسئلہ

  • 20619
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1335

سوال

(358) خاوند کی وفات کے بعد عدت کا مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہے ، اس کے گھر میں اس کا قریب البلوغ بیٹا اور بالغ دیور رہتا ہے، اب عدت گزارنے کا مسئلہ در پیش ہے کہ بیوہ ، اپنے گھر میں عدت گزارے یا اپنے والدین کے پاس چلی جائے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 خاوند کی وفات کے بعد عدت گزارنے والی عورت کا گھر میں رہ کر عدت گزارنے کے متعلق اہل علم کے دو موقف ہیں، ان میں مشہور اور قوی موقف یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہتے ہوئے ایام عدت گزارے ، اس کی دلیل حسب ذیل واقعہ ہے: ’’ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرا شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلام کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے موقع پاکر اسے قتل کر دیا، میں نے اپنی عدت اپنے میکے گزارنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کیونکہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی گھر نہیں چھوڑا تھا اور نہ اخراجات اور نان نفقہ کا کوئی بندوبست تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! تم اپنے میکے جا کر اپنی عدت پوری کر سکتی ہو، جب میں حجرے میں بیٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی اور فرمایا: تم اپنے پہلے مکان میں رہو جب تک تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے ، میں نے اپنی عدت اسی مکان میں گزاری جہاں میں اپنے خاوند کے ساتھ رہائش پذیر تھی، وہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے کسی کو بھیج کر یہ مسئلہ مجھ سے دریافت کیا، میں نے انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ ‘‘[1]

اس حدیث کے پیش نظر صورت مسؤلہ میں عورت کو اسی جگہ عدت گزارنا چاہیے جہاں وہ اپنے خاوند کے ہمراہ رہائش پذیر تھی، اپنے پاس اپنی والدہ یا کسی اور رشتہ دار کو رکھ لے، ہاں اگر وہاں رہنے میں اس کی عزت و ناموس یا اس کے مال کے ضیاع کا باعث ہے یا وہاں فاسق و فاجر لوگ موجود ہیں جن کی شرارتوں سے محفوظ رہنا ناممکن ہو تو پھر اپنے میکے جا کر ایام عدت گزار سکتی ہے لیکن اگر اپنے خاوند کے گھر رہتے ہوئے اپنے معاملات چلا سکتی ہے اور اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے تو ایسے حالات میں اس کا وسری جگہ منتقل ہونا شرعاً جائز نہیں ہے۔ ( واللہ اعلم )


[1] ابو داود ، الطلاق : ۲۳۰۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:320

محدث فتویٰ

تبصرے