سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(352) نابجھ پن کی وجہ سے طلاق دینا

  • 20613
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1428

سوال

(352) نابجھ پن کی وجہ سے طلاق دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اہل حدیث ہوں اور میرا رشتہ ایک تبلیغی حنفی سے ہو گیا، نکاح کے آٹھ ماہ بعد اس نے مجھے اس بنیاد پر طلاق دے دی کہ میں اولاد کے قابل نہ تھی، میں نے اس کی بہت منت سماجت کی لیکن میری کوئی شنوائی نہ ہوئی ، کیا معاشرہ میں بانجھ عورت کی یہی عزت ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اس سلسلہ میں مجھے کتاب وسنت کی روشنی میں مطمئن کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘[1]

اس حدیث کا سبب ورودیہ ہے کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے عرض کیا ، یا رسول اللہ! مجھے ایک عورت ملی ہے جو عمدہ حسب و نسب اور حسن جمال والی ہے مگر اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں ‘‘ پھر وہ دوبارہ آیا تو آپ نے منع فرمادیا ، جب وہ تیسری مرتبہ آیا تو آپ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ولادت کی صلاحیت سے محروم عورت سے نکاح نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نکاح کا اصل مقصود اولاد کا حصول ہوتا ہے، اس لئے جو عورت اس وصف سے ہی محروم ہو تو اس سے نکاح کرنے کا فائدہ ؟ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ بانجھ عورت سے مطلق طور پر نکاح کرنا حرام ہے، کیونکہ بعض اوقات نکاح کا مقصد حصول اولاد کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہےمثلاً بانجھ عورت بے سہارا ہے تو اسے سہارا دینے کے لئے نکاح کر لیا جائے یا بانجھ عورت دینی تعلیم سے آراستہ ہے تو دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کے لئے اسے اپنے حبالہ عقد میں لے لیا جائے ، ایسے حالات میں ایسی بانجھ عورت سے نکاح کرنا جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ امر ہے۔ عورت کے بانجھ ہونے کا کیسے پتہ چلا یا جائے؟ بیوہ عورت کے متعلق تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے مگر کنواری میں حیض نہ آنا ایک امکانی سبب تو سکتا ہے مگر یقینی نہیں ہوتا، بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بہت زیادہ بچے جننے والی، یہ صفات خاندانی طرف سے پہچانی جاتی ہیں۔

صورت مسؤلہ میں نکاح ہو چکا ہے تو خاوند کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ اسے طلاق نہ دیتا جبکہ بیوی کی طرف سے دوسری شادی کرنے کی پیشکش بھی ہوئی، کیونکہ اولاد دینا یا اس سے محروم کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے ، یا بیٹے بیٹیاں دونوں جمع کر دیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے۔‘‘ [2]

اس آیت کے پیش نظر بانجھ پن ایک غیر اختیاری امر ہے، اس میں انسانی عمل کو کوئی دخل نہیں ، البتہ بعض اوقات قابل علاج ہوتا ہے اور بعض اوقات ناقابل علاج ہوتا ہے، بہر حال صورت مسؤلہ میں چاہیے تھا کہ خاوند اپنی بیوی کا علاج کراتا۔ اگر بانجھ پن ناقابل علاج تھا تو حصول اولاد کے لئے دوسرے شادی کر لیتا، اس طرح اس کی بیوی میں یہ احساس پیدا نہ ہوتا کہ شاید معاشرہ میں میرے جیسی عورتوں کا کوئی مقام نہیں ہے یا انہیں دنیا میں کبھی کوئی سہارا نہیں مل سکے گا، ہم اس مقام پر یہ گزارش کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ والدین بچیوں کا نکاح کرتے وقت ذہنی ہم آہنگی کا ضرور خیال رکھا کریں ، صرف برادری کے رکھ رکھاؤ کے لئے اپنی بچیوں کو اپنے پندارنفس کی بھینٹ نہ چڑھایا کریں۔

صورتِ مسؤلہ میں ممکن ہے کہ ذہنی تفاوت ہی کار فرما ہو کیونکہ لڑکی اہل حدیث ہے اور خاوند تبلیغی حنفی ، بھلا ایک حنفی، اہل حدیث عورت کو کیسے قبول کر سکتا ہے،ا س پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے معاملات کو گہری بصیرت کے ساتھ حل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!


[1] ابو داؤد ، النکاح: ۲۰۵۰۔

[2] الشوریٰ : ۵۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:316

محدث فتویٰ

تبصرے