سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(351) بیوہ عورت کا ولی کے بغیر نکاح کرنا

  • 20612
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2684

سوال

(351) بیوہ عورت کا ولی کے بغیر نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے پڑوس میں ایک بیوہ ہے ، اس کے والد عقد ثانی کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں، اس نے کسی سے مسئلہ پوچھا تو بتایا گیا کہ بیوہ خود مختار ہے، اس کے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے، اس نے خفیہ طور پر کسی سے نکاح کر لیا، نکاح کے وقت وہاں صرف نکاح خواں، دولہا، وہ خود اور ایک اور آدمی موجود تھا ، کیا یہ نکاح درست ہے؟ وہ خود بھی پریشان ہے کہ اس کے والد کسی دوسری جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں ، کیا دوسری جگہ پر نکاح کرنا، نکاح پر نکاح تو نہیں ہو گا، کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام میں کوئی بھی مسلمان عورت اپنے نکاح کا معاملہ از خود طے نہیں کر سکتی خواہ وہ بیوہ ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس کے نکاح کا معاملہ اس کے ولی کی وساطت ہی سے انجام پائے گا۔ احادیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔‘‘[1]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے، وہ نکاح باطل ہے۔‘‘[2]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت ، کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔ ‘‘[3]

اس حدیث کے پیش نظر ولایت کے لئے مرد کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ باپ کے بجائے ماں ولی نہیں بن سکتی اور نہ کوئی لڑکی از خود اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ اگر باپ نہیں ہے تو چچا یا بھائی وغیرہ ولی بنے گا، اگر کوئی بھی نہیں ہے تو حاکم وقت یا قاضی اس کا ولی ہو گا۔ بہر حال اسلام کی تعلیمات میں بڑا توازن ہے کہ جن والدین نے لڑکی کو پالا پوسا، اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا ، وہ نکاح میں بنیادی کردار ادا کرنے کے حقدار ہیں، ان کی رضا مندی کے بغیر لڑکی کی شادی ناجائز ہے۔ دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضا مندی حاصل کئے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع کیا گیا ہے، جن روایات میں بیوہ کو خود مختار کہا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہونے والے خاوند کا انتخاب کرنے میں خود مختار ہے، اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے میں خود مختار ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق صورت مسؤلہ میں جو نکاح ولی کے بغیر ہوا ہے اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر اس نکاح کے متعلق کوئی کاغذی کارروائی نہیں ہوئی ہے تو اسے طلاق لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر نکاح کا باضابطہ اندارج ہوا ہے تو مستقبل میں خطرات سے محفوظ رہنے کے لئے مرد سے تحریری طلاق نامہ لکھوا لیا جائے ، پھر جہاں والدین نکاح کرنا چاہتے ہیں اگر عورت وہاں راضی ہے تو نکاح کر دیا جائے، اس طرح وہ نکاح پر نکاح کی زد میں نہیں آئےگی۔ (واللہ اعلم)


[1] ابو داؤد ، النکاح: ۲۰۸۵۔

[2] ابو داؤد ، النکاح : ۲۰۸۳۔

[3] ابن ماجہ ، النکاح : ۱۸۸۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:315

محدث فتویٰ

تبصرے