السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے دین اسلام سے بہت محبت ہے ، میں نے اپنی ایک پڑوسن سے قرآن مجید کا ترجمہ اور منتخب احادیث پڑھی ہیں۔ میری انتہائی خواہش ہے کہ آئندہ زندگی میں میرا رفیق سفر کوئی دیندار شخص ہو لیکن میرے گھر والے اس انتخاب پر آمادہ نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے برادری کی کڑی شرط لگا رکھی ہے، کیا اسلام میں اس قسم کی شرط کا کوئی ذکر ہے؟ براہ کرم اس سلسلہ میں میری راہنمائی کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ازدواجی رشتہ کے لئے بنیادی چیز دینداری ہے، باقی مال و متاع ، حسن و جمال اور حسب ونسب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عورت سے نکاح کرنے کے لئے چار چیزوں کو دیکھا جاتاہے، اس کے مال و متاع کو ، اس کے حسب و نسب کو ، اس کے حسن و جمال کو اور اس کے دین واخلاق کو ، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں تو دین والی عورت کو اختیار ہے۔[1]
اسی طرح عورت کے سر پرست کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے جس کا دین و اخلاق اچھا ہو اور عورت کے بارے میں وہ امین اور دیانتدار ہو تو اسے نکاح کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جب تمہارے پاس کوئی شخص پیغام نکاح بھیجے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہے تو اس سے نکاح کر دیا جائے، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘[2]
لیکن ہمارا معاشرہ ایک دوسری تفریق میں مبتلا ہے جسے اسلام پسند نہیں کرتا اور اسلام میں اس کی چنداں حیثیت بھی نہیں ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور یہ کنبے ، خاندان تو تمہاری شناخت اور پہچان کے لئے ہیں ، لیکن اللہ کے ہاں تم سب میں زیادہ با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔‘‘[3]
اس آیت میں ذات، پات اور خاندان و قبیلہ کی حیثیت نہیں بیان کی گئی ہے لیکن ہمارے ہاں اس خاندانی حسب و نسب کو باعث فخر خیال کیا جاتا ہے اور اپنے رشتوں کی بنیاد اسی کو قرار دیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں دینداری کی اس قدر حیثیت نہیں جتنی خاندان اور قبیلے کی ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، خبر دار! کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے، اسی طرح نہ کسی سرخ کو سیاہ پر اور نہ کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے البتہ تقویٰ اور پرہیزگاری وجہ فضیلت ضرور ہے۔ ‘‘[4]
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لوگ اپنے آباءو اجداد پر فخر کرنے سے باز آجائیں یا پھر وہ اللہ کے ہاں اپنی ناک سے گندگی دھکیلنے والے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آباؤ اجداد کی بنیاد پر دورِ جاہلیت کے فخر و غرور کو ختم کر دیا ہے۔ آج یا تو وہ مومن متقی ہے یا پھر فاجر اور لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت ، سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ ‘‘[5]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک مسلمانوں میں رنگ نسل یا خاندان و قبیلہ کی بنیاد پر تفریق وجہ فضیلت نہیں ہے، اسلام میں اللہ کے ہاں فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ آخر میں ہم سائلہ کو یہ وصیت کرتے ہیں کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے اور کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو خاندان کے لئے باعث ننگ و عار ہو ، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور ایسا رفیق سفر عطا فرمائے گا جو آپ کے لئے اللہ کی اطاعت میں مدد گار و معاون ثابت ہو۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری ۔ النکاح : ۵۰۹۰۔
[2] سنن الترمذی، النکاح : ۱۰۸۴۔
[3] الحجرات:۱۳۔
[4] مسند امام احمد ص ۴۴۱ ج ۵۔
[5] جامع ترمذی ، المناقب : ۳۹۵۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب