سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(349) رخصتی سے پہلے طلاق دینے یا خلع لینے کی صورت میں حق مہر کا حکم

  • 20610
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1596

سوال

(349) رخصتی سے پہلے طلاق دینے یا خلع لینے کی صورت میں حق مہر کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی کا صرف نکاح ہوا، ابھی رخصتی عمل میں نہیں آئی کہ اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی یا اس نے از خود خلع لے لیا تو حق مہر کے متعلق کیا حکم ہے، آیا وہ ادا کرنا ہو گا یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مطلقہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی کے متعلق چار صورتیں حسب ذیل ہیں:

1  حق مہر مقرر نہ ہوا ہو اور نہ ہی صحبت کی نوبت آئی ہو تو اس صورت میں حق مہر تو ہے ہی نہیں البتہ کچھ نہ کچھ دینے کی تاکید ہے کیونکہ رشتہ جوڑنے کے بعد صحبت سے پہلے ہی طلاق دینے سے عورت کو جو نقصان پہنتا ہے اس کی کسی حد تک تلافی ضرور کرنا چاہیے، قرآن کریم میں ہے: ’’ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دے دو جنہیں نہ تم نے ہاتھ لگایا ہو اور نہ ہی حق مہر مقرر کیا ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں البتہ کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو، وسعت والا اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق انہیں بھلے طریقے سے رخصت کرے، یہ نیک آدمیوں پر حق ہے۔‘‘[1]

ایسی عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے۔

2  حق مہر مقرر ہو چکا ہو لیکن صحبت کا موقع نہ ملا ہو ، اس صورت میں طے شدہ حق مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تم انہیں ہاتھ لگانے سے پیشتر طلاق دے دو مگر ان کا حق مہر مقرر ہو چکا تھا تو طے شد حق مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا اِلا یہ کہ وہ عورتیں از خود معاف کر دیں یا وہ مرد فراخدلی سے کام لے جس کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے اور اگر تم درگزر کرو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ [2]

عورت کی طرف سے معافی یہ ہے کہ وہ خاوند کو آدھا حق مہر بھی معاف کر دے جو اسے ادا کرنا ضروری تھا اور خاوند کی طرف سے فراخدلی یہ ہے کہ آدھے کے بجائے پورا حق مہر ادا کر دے اگر ادا کر چکا ہے تو اس سے کچھ واپس نہ لے۔

3  مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہو چکی ہو، یہ عام صورت ہے، اس میں حق مہر پورا ادا کرنا ہو گا، اگر ادا کر چکا ہے تو واپس لینے کا مجاز نہیں ہے۔ 4  مہر مقرر نہ ہوا تھا مگر صحبت ہو چکی ہو تو اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہو گایعنی اتنا حق مہر ادا کرے گا جو اس خاندان اور قبیلہ کی عورتوں کو دیا جاتا ہے، اس کے متعلق پنچائتی فیصلہ ہو گا۔ اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ۔ خلع لینے کی صورت میں عورت کو کچھ نہیں ملے گا، خواہ حق مہر مقرر ہوا ہو یا مقرر نہ ہوا ہو۔ اس سے صحبت ہوئی ہو یا صحبت کا موقع نہ ملا ہو، بہر حال خلع یافتہ عورت کو کچھ نہیں ملے گا اگر حق مہر وصول کر چکی ہے تو وہ اسے واپس کرنا ہو گا۔

بیوہ کے لئے اس کے برعکس حکم ہے کہ اسے ہر صورت میں حق مہر ملے گا، مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، مرنے والے خاوند سے صحبت کی ہو یا اسے صحبت کا موقع نہ ملا ہو، عورت کو بہر حال پورا حق مہر ملے گا، اگر مہر مقرر تھا تو اتنا ملے گا اور اگر مقرر نہیں ہوا تھا تو مہر +مثل ملے گا۔ ( واللہ اعلم)


[1] البقرة: ۲۳۶۔

[2] البقرة: ۲۳۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:313

محدث فتویٰ

تبصرے