سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) نکاح وٹہ

  • 20609
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 822

سوال

(348) نکاح وٹہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری برادری میں نکاح وٹہ سٹہ کا بہت رواج ہے، اس کے متعلق شرعی حکم کی وضاحت کریں، کیا اگر حق مہر رکھ لیا جائے تو بھی وٹہ بن جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح وٹہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی صراحت کے ساتھ منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح وٹہ سے منع فرمایا ہے۔[1]

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی نہیں ہے۔‘‘[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح وٹہ کی صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ اس سے کر دے گا، آپ نے اس سلسلہ میں حق مہر کا ذکر نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت عام ہے، حق مہر ہو یانہ ہو دونوں صورتوں میں منع ہے اور جس تعریف میں حق مہر نہ ہونے کا ذکر ہے وہ حضرت نافع کی تفسیر ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ امیر مدینہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ دو آدمیوں نے نکاح شغار کیا ہے اور مہر بھی مقرر کیا ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب لکھا کہ ان میں تفریق کرا دی جائے کیو ں کہ یہ وہی شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔[3]

نکاح وٹہ اس لئے بھی منع ہے کہ اس میں سر پرست کی طرف سے عورتوں پر ظلم کیا جاتا ہے ، انہیں شادی پر مجبور کیا جاتا خواہ وہ اسے ناپسند کرتی ہوں، اس نکاح میں عورتوں کو ایک سودا سلف کی حیثیت دی جاتی ہے ، عورت کی مرضی اور رغبت کا اس میں کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ معاشرتی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک عورت کو کسی قصور کی وجہ سے سزا مل جاتی ہے تو دوسری کو بے قصور ہونے کے باوجود اس کٹھن مرحلہ سے گذرنا پڑتا ہے، ہمارے ہاں حالات و واقعات سے یہی معلوم ہوتا ہے؟ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری ، النکاح : ۵۱۱۲۔

[2] صحیح مسلم، النکاح: ۳۴۶۸۔

[3] مسند امام احمد ص ۹۴ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:312

محدث فتویٰ

تبصرے