سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(337) مسئلہ رضاعت

  • 20598
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 831

سوال

(337) مسئلہ رضاعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسمی عبد الحمید شاہد نے گیارہ ماہ کی عمر میں اپنی پھوپھی کا دودھ ایک مرتبہ پیا جب کہ اس کی والدہ کو غسل دیا جا رہا تھا کیونکہ وہ فوت ہو چکی تھی، پھر دوسری مرتبہ اس وقت دودھ پیا جب کہ اس کی والدہ کو دفن کیا جا چکا تھا، اب عبد الحمید اپنے لڑکے کی شادی اپنی پھوپھی کی ایک چھوٹی بیٹی سے کرنا چاہتا ہے، اس نکاح میں رضاعت یا کوئی دوسرا امر تو مانع نہیں ، راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مسمی شاہدؔ نے صرف دو مرتبہ اپنی پھوپھی کا دودھ پیا ہے، دو مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔[1]

ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ایک مرتبہ دودھ پینے اور دو مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، جب کہ ایک تیسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’ پستان کو ایک مرتبہ منہ ڈالنے یا دو مرتبہ منہ ڈالنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ [2]

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ایک یا دو مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو پانچ مرتبہ دودھ پلایا پھر وہ ان کے بچے کی جگہ پر ہو گیا۔ [3]

متعدد صحابہ کرام کا یہی موقف ہے کہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عائشہ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے متعلق ایسا ہی مروی ہے۔ صورت مسؤلہ میں عبد الحمید شاہد نے اپنی پھوپھی کا دو مرتبہ دودھ پیا ہے، اتنی تعداد سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ لہٰذا وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی پھوپھی کی لڑکی سے کر سکتا ہے، اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ اگرچہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ دودھ تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی پی لیا جائے ، اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی لیکن ہمارے نزدیک یہ موقف صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم


[1] صحیح مسلم، الرضاع: ۱۴۵۰۔

[2] صحیح مسلم ، الرضاع: ۱۴۵۱۔

[3] صحیح مسلم، الرضاع : ۱۴۵۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:305

محدث فتویٰ

تبصرے