سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(335) سابقہ سالی سے بیٹے کا نکاح

  • 20596
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1134

سوال

(335) سابقہ سالی سے بیٹے کا نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد علی نے ایک عورت سے شادی کی جواَب فوت ہو چکی ہے، خاوند نے کسی دوسری عورت سے نکاح کیا، اس کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا ، جواَب جوان ہے، محمد علی اپنے اس بیٹے کا نکاح پہلی فوت شدہ بیوی کی بہن یعنی اپنی سابقہ سالی سے کرنا چاہتا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں کیا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قرآن کریم نے جن حرام رشتوں کی تفصیل بیان کی ہے ان کی حسب ذیل تین اقسام ہیں:

٭           خونی رشتے: یہ سات قسم کے رشتے ہیں:

1  مائیں ، ان میں دادیاں اور نانیاں بھی شامل ہیں،  2  بیٹیاں ، ان میں پوتیاں اور نواسیاں بھی شامل ہیں۔ 3  بہنیں خواہ حقیقی ہوں یا پدری یا مادری تمام بہنیں اس میں شامل ہیں۔ 4  پھوپھیاں ، ان میں باپ کی حقیقی ، پدری اور مادری بہنیں سب شامل ہیں۔ 5  خالائیں خواہ سگی ہوں یا پدری یا مادری سب حرام ہیں۔ 6  بھتیجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ 7  بھانجیاں اور ان کی بیٹیاں ۔  

٭           دودھ کے رشتے: قرآن کریم نے حسب ذیل صرف دو رضاعی رشتوں کو حرام کہا ہے:

1  رضاعی مائیں ، 2  رضاعی بہنیں۔

حدیث کے مطابق رضاعت کی رو سے وہ سب رشتے حرام ہیں جو نسب یعنی خون کی رو سے حرام ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے: رضاعی بیٹیاں، رضاعی پھوپھیاں ، رضاعی خالائیں ، رضاعی بھانجیاں اور رضاعی بھتیجیاں۔ ٭ سسرالی رشتے، اس سے مراد وہ رشتے ہیں جو نکاح کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں ، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:

1  بیوی کی ماں یعنی ساس،  2  بیوی کی بہن یعنی سالی جب تک اس کی بہن نکاح میں ہے۔  3  باپ کی منکوحہ یعنی سوتیلی ماں 4  سوتیلی بیٹی بشرطیکہ اس کی ماں سے مباشرت ہو چکی ہو۔ 5  بہو سے نکاح بھی حرام ہے۔ ان کے علاوہ شوہر والی تمام عورتیں بھی حرام ہیں، نیز خالہ اور اس کی بھانجی ، پھوپھی اور اس کی بھتیجی اسی طرح دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام ہے۔ ان تمام حرام رشتوں کی تفصیل سورۃ النساء آیت نمبر ۲۲، ۲۳ اور ۲۴ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

قرآن کریم کی رو سے مذکورہ رشتوں کے علاوہ دیگر تمام رشتے حلال ہیں، بشرطیکہ عورت کی رضا مندی سے ایجاب و قبول ہو، عورت کا سر پرست اس کی اجازت دے، حق مہر مقرر ہو اور گواہ بھی موجود ہوں نیز یہ نکاح آبادی کی نیت سے مستقل بنیادوں پر ہو، عارضی طور پر چند دنوں یا مہینوں یا سالوں کے لیے نہ ہو۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں جب ہم صورت مسؤلہ پر غور کریں تو اِن کے علاوہ جتنی بھی عورتیں ہیں انہیں اپنے مال کے ذریعے حاصل کرنا تمہارے لئے جائز قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی مقصود نہ ہو۔ ‘‘[1]


[1] النساء : ۲۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:304

محدث فتویٰ

تبصرے