السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نکاح کے لیے لڑکا اور لڑکی رضا مند ہیں، لیکن والدین اس میں رکاوٹ ہیں ، لڑکی گھر سے بھاگ کر لڑکے سے نکاح کر لیتی ہے ، اس کے بعد والدین بھی راضی ہو جاتے ہیں، تو کیا یہ شادی صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ نکاح صحیح نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد والدین راضی ہو جائیں، کیونکہ نکاح کے لیے ولی یعنی سر پرست کی اجازت ضروری ہے، جو عورت اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے ، حدیث میں اس کے متعلق سخت وعید آئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت کو زانیہ اور بدکار کہا ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے، بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا ۔ ‘‘[1]
اگر اس کے والدین ، اس نکاح کو قبول کر لیتے ہیں اور اس کے متعلق اپنی رضا مندی کا اظہار کرتے ہیں تو بھی نکاح دو بارہ کیا جائے گا کیونکہ پہلا عقدِ نکاح صحیح نہیں تھا، ان دونوں لڑکی اور لڑکے کو اللہ تعالیٰ سے اس غیر شرعی اقدام پر معافی مانگنا ہو گی اور فوراً علیحدگی اختیار کر کے دوبارہ سر پرست کی اجازت سے نکاح کیا جائے، پہلے نکاح کو شریعت تسلیم نہیں کرتی اگرچہ والدین نے اس پر اظہار رضا مندی کر دیا ہو۔ ( واللہ اعلم )
[1] ابن ماجه ، النکاح : ۱۵۲۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب