سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(329) عقدِ ثانی کے بعد بیوی کی وراثت

  • 20590
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 804

سوال

(329) عقدِ ثانی کے بعد بیوی کی وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا بھائی جو شادی شدہ تھا وہ فوت ہو گیا ، وفات کے وقت اس کی ایک بیٹی، بیوی اور ایک بھائی (میں خود)موجود تھا، بیوہ نے عدت گذارنے کے بعد عقد ثانی کر لیا ہے، کیا اسے متوفی کی جائیداد سے حصہ ملے گا ۔ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت کر یں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وراثت کے استحقاق کے لیے آدمی کی وفات کے وقت ان کی تعلق داری کو دیکھا جا تا ہے، اگر سبب وراثت موجود ہے اور وہاں کوئی رکاوٹ نہیں تو اسے متوفی کی جائیداد سے وراثت کا حق دار قرار دیا جا تا ہے، دوسرے ورثا اگر اسے اس کا حق نہیں دیتے تو یہ ان کا اپنا قصور ہے۔ صورت مسؤلہ میں جب سائل کا بھائی فوت ہوا تو اس وقت اس کی بیوی، بیٹی اور سائل خود موجود تھا لہذا مرحوم کی جائیداد کے وارث بھی یہ تینوں افراد ہوں گے جو مرحوم کی وفات کے وقت زندہ موجود تھے۔ اگر اس کی بیوہ نے عدت گزارنے کے بعد عقد ثانی کر لیا ہے تو اسے اپنے سابقہ خاوند کی جائیداد سے محروم نہیں قرار دیا جا سکتا، ہمارے ہاں یہ غلط مسئلہ متصور ہو چکا ہے کہ عقد ثانی کے بعد بیوی اپنے پہلے خاوند کے ترکہ سے محروم ہو جا تی ہے ، کتاب و سنت میں اس کے محروم قرار دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، ان ورثا کے شرعی حصص حسب ذیل ہیں۔

1             مرحوم کی لڑکی کو منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے نصف حصہ دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ترکہ ہے ۔ ‘‘[1]

2             بیوہ کو آٹھواں حصہ دیا جائے گا کیونکہ مرحوم کی اولاد موجود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر ان بیویوں کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔‘‘[2]

3             بھائی کو مقررہ حصہ لینے والوں سے بچا ہوا ترکہ دیا جائے گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہے۔ ‘‘[3]

سہولت کے پیش نظر جائیداد کے چوبیس حصے کر لیے جائیں، ان کا نصف یعنی ۱۲ حصے بیٹی کو ، آٹھواں حصہ یعنی ۳ حصے بیوہ کو اور باقی نو حصے بھائی (سائل ) کو مل جائیں گے ۔ اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرض ہو یا اس نے کوئی وصیت کی ہو تو تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی اور وصیت کا نفاذ ضروری ہے اور وصیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ تیسرے حصہ سے زائد نہ ہو، بہر حال بیوہ، مرحوم کی جائیداد سے حق دار ہے اگر چہ اس نے عدت کے بعد عقد ثانی کر لیا ہے، عقد ثانی اس کی محرومی کا سبب نہیں ہے۔(واللہ اعلم )


[1] النسا ء :۱۱۔

[2] النساء، ۱۲۔

[3] صحیح بخاری، الفرائض ، ۶۷۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:298

محدث فتویٰ

تبصرے