سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(323) ناجائز وصیت کالعدم ہے

  • 20584
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1050

سوال

(323) ناجائز وصیت کالعدم ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد نے اپنی جائیداد ہمارے بڑے بھائی کو دینے کی وصیت کی ہے جبکہ ہماری بہنیں بھی موجود ہیں، اب وہ فوت ہو چکے ہیں، کیا اس پر عمل کیا جائے گا یا شرعی ضابطہ کے مطابق اسے تقسیم کرنا ہو گا، پسماندگان میں سے ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں، ہماری والدہ پہلے ہی وفات پا چکی ہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری الجھن دور کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وصیت کا ایک ضابطہ ہے کہ جو شرعی طور پر کسی کا وارث ہے اس کے متعلق وصیت نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کاحق ے دیا ہے، اس لیے وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ ‘‘[1] اس حدیث کی بنا پر باپ کی ایک بیٹے کے نام وصیت باطل ہے لہذا اس کا نفاذ جائز نہیں ہے، اگر دیگر ورثا اس وصیت پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیں تو چنداں حرج نہیں، اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو شرعی ضابطہ کے مطابق متوفی کی جائیداد تقسیم کی جائے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اولاد میں وراثت کا اصول بایں الفاظ بیان کیا ہے:’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کر تا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ ‘‘[2]

اس آیت کریمہ کے پیش نظر اگر میت کے ذمے قرض ہے تو اسے اتارا جائے پھر تقسیم کے لیے اس جائیداد کے آٹھ حصے بنا لیے جائیں، دو دو حصے فی بیٹا اور ایک ایک فی بیٹی کو دے دیا جائے۔ ہم اس مناسبت سے والدین کو نصیحت کر تے ہیں کہ جائیداد کے سلسلہ میں کوئی ایسی وصیت نہ کریں جو ظلم و زیادتی پر مبنی ہو۔ کیونکہ دنیا کا مال و متاع قیامت کے دن کام نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی اولاد کچھ نفع دے سکے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اس دن مال و اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ ‘‘[3]اس لیے وصیت کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے ہوئے اسےسر انجام دیا جائے، اگر کوئی نا جائز وصیت کر گیا تو اسے نافذ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ پسماند گان پر اس کی اصلاح ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جو شخص وصیت کر نے والے کی طرف سے طرفداری یا زیادتی کا اندیشہ رکھتا ہو تو اس کی اصلاح کر دے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘[4]صورت مسئلہ میں وصیت کالعدم ہے اور ورثا کو چاہیے کہ وہ متوفی کی جائیداد کو ضابطہ شرعی کے مطابق تقسیم کریں۔ (واللہ اعلم)


[1] ابو داؤد :۲۸۷۰۔

[2] النسا ء :۱۱۔

[3] الشعرا:۸۸۔

[4] البقرۃ:۱۸۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:293

محدث فتویٰ

تبصرے