سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(319) وراثت کا ایک مسئلہ

  • 20580
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 631

سوال

(319) وراثت کا ایک مسئلہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا ، اس نے بائیس لاکھ روپیہ کی جائیداد چھوڑی ہے، پسماندگان میں والدہ ، دو بیویاں، چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، ہر ایک وارث کو کتنا حصہ ملے گا، کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرط صحت سوال واضح ہو کہ والدہ کو چھٹا حصہ ملتا ہے کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو تر کے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے۔ ‘‘[1]

دونوں بیویاں ترکہ سے آٹھویں حصہ میں شریک ہوں گی ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’خاوند کے صاحب اولاد ہو نے کی صورت میں بیویو ں کا آٹھواں حصہ ہو گا۔ ‘‘[2]

مقررہ حصے دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کی اولاد کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے مذکر رشتہ داروں کا ہے ۔‘‘[3] پھر باقی ترکہ کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دُگنا حصہ ملے ۔ قرآن میں ہے :’’تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کر تا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ ‘‘[4] سہولت کے پیش نظرترکہ کے چوبیس حصے کیے جائیں پھر ان سے چار حصے والدہ کو ، تین حصے بیو گان کو اور باقی سترہ حصے اولاد کے ہیں۔ تقسیم کے لیے مندرجہ ذیل صورت ہو گی۔

والدہ

(بیوی، بیوی )

بیٹا

بیٹا

بیٹا

بیٹا

بیٹی

بیٹی

بیٹی

ٹوٹل

۲۴/۴

۱۳۲ /۱۷

۱۳۲ /۱۷

۱۳۲ /۱۷

۱۳۲ /۱۷

۱۳۲ /۱۷

۲۶۴/۷۱

۲۶۴/۷۱

۲۶۴/۷۱

۲۶۴

۴۴

(۳۳)

۳۴

۳۴

۳۴

۳۴

۷۱

۷۱

۷۱

 

 

چونکہ جائیداد بائیس لاکھ روپیہ ہے اسے ۲۶۴ پر تقسیم کیا تو ایک حصہ 8333.33روپے آ تا ہے ۔ اب ہر وارث کو ان کے حصوں کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے۔ جو حسبِ ذیل ہے :

والدہ کو 366667بیو گان 275000 روپے ہر بیوہ کو 137500روپے

ہر بیٹے کو 28333.25روپے اور ہر بیٹی کو 141666.70روپے ۔ (واللہ اعلم )


[1] النساء : ۱۱۔

[2] النساء:۱۲۔

[3] بخاری ، الفرائض۔

[4] النساء : ۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:292

محدث فتویٰ

تبصرے