سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(317) مسئلہ وراثت

  • 20578
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 651

سوال

(317) مسئلہ وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے والد فوت ہو ئے تو اس وقت ہم دو بھائی اور چار بہنیں زندہ تھے، انھوں نے وصیت کی تھی کہ بڑے لڑکے نے میری خدمت کی ہے لہذا رہائشی مکان اسے دیا جائےاور باقی جائیداد تقسیم کر لی جائے، کیا ایسا کرنا جائز ہے نیز بتائیں کہ جائیداد کس طرح تقسیم کی جا ئے گی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اللہ تعالیٰ نے اولاد میں جائیداد کی تقسیم کا اصول بایں الفاظ بیان کیا ہے :’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کر تا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ ‘‘[1]

 شریعت نے وصیت کے متعلق بھی ایک ضابطہ بنایا ہے، اس کے مطابق جس رشتہ دار کو جائیداد سے حصہ ملتاہے اس کے حق میں وصیت نا جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب وارث کے لیے وصیت نہیں ہو گی۔[2]

اس حدیث کی بنا پر باپ کی ایک بیٹے کے نام اس کی خدمت کے صلہ میں وصیت کرنا نا جائز اور باطل ہے ، لہذا اس پر عمل کرنا بھی درست نہیں ہے ، ہاں اگر تمام بیٹے بیٹیاں اس پر رضا مندی اور موافقت کا اظہار کر دیں تو پھر کوئی حرج نہیں بشر طیکہ وصیت کر دہ مکان کل جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ مالیت کا نہ ہو ۔ لیکن اگر شرعی ورثا اس پر راضی نہ ہوں تو بیٹے سے وہ مکان واپس لے کر متروکہ جائیداد میں شامل کیا جائے پھر وہ جائیداد اللہ تعالیٰ کے مقررہ اصولوں کے مطابق دو بیٹوں اور چار بیٹیوں میں تقسیم کی جائے گی، اگر سوال میں ذکر کر دہ ورثاء دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہی ہیں تو جائیداد اس طرح تقسیم کی جائے کہ ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دوگنا حصہ دی جائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مذکر کو دو عورتوں کے برابر حصہ دیا جائے ۔’‘[3]

 سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں، دو دو حصے فی لڑکا اور ایک ایک حصہ فی لڑکی تقسیم کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم )


[1] النساء : ۱۱۔

[2] ابو داؤد ، الفرائض:۲۸۷۰۔

[3] النساء : ۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:290

محدث فتویٰ

تبصرے