السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میت کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ؟ اس سلسلے میں مسلم شریف کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی۔ اور اس کے علاوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ آپ نے دو دنبے ذبح کیے۔ صحابی یا تابعی کے پوچھنے پر آپﷺ نے فرمایا ایک میری طرف سے اور دوسرا رسول اللہﷺ کی طرف سے ہے۔ اس حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کا جواز نکالنا کیسا ہے ؟ اس کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع سے اقتباس بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں۔ کیا حجۃ الوداع میں ایسے اقتباس ہیں ؟ اب مندرجہ بالا باتوں میں سائل کو کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے؟ کیا آپﷺنے امت مسلمہ کو اس عمل کو جاری رکھنے کا حکم دیا ؟ کیا صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کا یہ عمل رہا ہے ؟ کیا یہ آپﷺ کے لیے خاص ہے یا ہم بھی اس قربانی سے مستفید ہو سکتے ہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیجئے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم والی حدیث سے زندہ مراد ہیں پھر صحیح مسلم کے لفظ ہیں :
«وَأَخَذَ الْکَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ، ثُمَّ ذَبَحَهُ ، ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اﷲِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ ، وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَّی بِه»
’’اور آپﷺ نے مینڈھا پکڑا اور اس کو لٹایا پھر اس کو ذبح کیا پھر فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ قبول فرما محمدﷺ کی طرف سے اور آل محمدﷺ کی طرف سے اور امۃ محمدیہﷺ کی طرف سے پھر قربانی کی ساتھ اس کے‘‘ اس میں یہ نہیں آیا ’’کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی‘‘ اس میں تو ذبح کے بعد اپنی ، آل محمد اور امت محمدﷺ کی طرف سے قبولیت کی دعا کا تذکرہ ہے ۔
علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دو دنبے قربانی کرنے والی روایات ثابت نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک نامی راوی کثرت خطا اور سوء حفظ کے باعث ضعیف ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول ہیں۔
رہا خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس ’’آپﷺ نے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں‘‘ تو وہ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔
رہے لفظ
«اَللّٰهُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِهِ‘‘ الخ اور لفظ ’’اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِیْ»
تو وہ رسول اللہﷺسے ثابت نہیں۔
آپ کے باقی تین چار سوال میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت پر مبنی ہیں تو جب ثبوت کا حال معلوم ہو گیا تو یہ تین چار سوال خود بخود ختم ہو گئے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب