سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(308) کلالہ کیا ہوتا ہے؟

  • 20569
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 4179

سوال

(308) کلالہ کیا ہوتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کلالہ کیا ہو تا ہے؟ ایک آدمی فوت ہوا ہے جس کے صرف باپ کی طرف سے بہن بھائی موجود ہیں اور کوئی رشتہ دار زندہ نہیں ، اس کے ترکہ کی تقسیم کیسے ہو گی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کلالہ وہ شخص ہے جس کے نہ والدین ہوں، نہ دادا اور نہ اولاد ، نہ پو تے پوتیاں، خواہ وہ میت مرد ہو یا عورت، وہ کلالہ ہے البتہ اس کے بہن بھائی ہو سکتے ہیں، کلالہ کے ترکہ کے متعلق دو باتوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ جو حسب ذیل ہیں۔

1             اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی موجود ہیں اور سوتیلے بھی زندہ ہیں تو حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے بہن بھائی محروم ہوں گے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلے بہن بھائیوں میں جائیداد تقسیم ہو گی۔

2             کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم ترکہ کی بالکل وہی صورت ہو گی جو اولاد کی صورت میں ہو تی ہے یعنی اگر ایک بہن ہے تو اسے نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو انہیں دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک ہی بھائی ہو تو تمام ترکہ کا واحد وارث ہو گا اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو ۲ حصے اور ہر عورت کو ۱ حصہ ملے گا ، جیسا کہ درج ذیل کی آیت کریمہ میں اس کی تفصیل ہے :

(ترجمہ ):’’لوگ آپ سے کلالہ کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں ؟ آپ ان سے کہہ دیں اللہ تمہیں اس کے متعلق یہ فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص لا ولد مر جائے اور اس کی ایک ہی بہن ہو تو اسے ترکہ کا نصف ملے گا اور اگر کلالہ عورت ہو یعنی لا ولد تو اس کا بھائی اس کا وارث ہو گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں ترکہ سے دو تہائی ملے گا اور اگر کئی بہن بھائی یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے ہوں تو مردکو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔‘‘[1]

صورت مسؤلہ میں جو آدمی فوت ہو ا ہے وہ کلالہ ہے ، اس کے صرف باپ کی طرف سے بہن بھائی زندہ ہیں اور کوئی قریبی رشتہ دارموجود نہیں، اس صورت میں پدری بہن بھائی اس کی جائیداد کے وارث ہوں گے ، ترکہ بایں طور پر تقسیم کیا جائے کہ بھا ئی کو بہن کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جائے۔ (واللہ اعلم )


[1] النساء :۱۷۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:284

محدث فتویٰ

تبصرے