سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(305) ایک مسئلہ وراثت (ثالث)

  • 20566
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 625

سوال

(305) ایک مسئلہ وراثت (ثالث)

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص اپنے دادا مرحوم کی جائیداد سے ملنے والی وراثت کو صرف اپنے تصرف میں لا تا ہے ، بہنوں کو اس سے محروم رکھتا ہے اور اسے صرف اپنی اولاد کے نام کر نا چاہتا ہے ۔ کیا یہ مجوزہ اقدام شریعت کے مطابق ہے ، وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں محمد ایوب کا مجوزہ اقدام شریعت کے خلاف ہے کیونکہ اولاً کوئی بھی باپ اپنی زندگی میں وراثت کے طور پر اپنی جائیداد اپنی اولاد کو نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وراثت موت کے بعد بنتی ہے اور کسی کی موت کے وقت جو ورثا زندہ موجود ہوں وہ ا س وراثت کے حقدار ہو تے ہیں۔ مذکورہ صورت میں اس بات کا قطعی علم نہیں کہ باپ کی وفات کے وقت اس کی اولاد میں سے کون کون زندہ تھا۔ ثانیاً متروکہ جائیداد میں اس کی ہمشیر گان بھی شریک ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ ‘‘[1]

اس آیت کے پیش نظر محمد ایوب اپنے دادا کی متروکہ جائیداد کا اکیلا وارث نہیں بلکہ اس کی بہنیں بھی اس میں شریک ہیں۔ اسے اپنی ایک بہن کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملتا ہے۔ لہذا اپنی بہنوں کو مقررہ حصہ دے کر باقی جائیداد میں تصرف کر نے کا حق دار ہے وہ بھی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے۔اگر محمد ایوب اپنے دادا کی متروکہ جائیداد میں اپنی بہنوں کو نظر اندازکر کے صرف اپنی اولاد کے نام کرنا چاہتا ہے تو اس کا یہ اقدام شریعت کے خلاف ہے، اسے اس سے اجتناب کرنا چاہے۔ (واللہ اعلم )


[1] النساء :۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:282

محدث فتویٰ

تبصرے