سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(281) ناچ گانے کی ویڈیو اور اس کا کاروبار

  • 20542
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 727

سوال

(281) ناچ گانے کی ویڈیو اور اس کا کاروبار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہمارے ہاں شادی بیاہ کے موقع پر ناچ گانے کی فلم تیار کی جا تی ہے ، اس طرح ویڈیو بنانے کا کاروبار کیا جا تا ہے، اس قسم کے کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 شادی بیاہ کے موقع پر عورتوں کا گانا بجانا اور ناچنا تھرکنا حرام اور ناجائز ہے پھر اس کی فلم یا ویڈیو تیار کرنا اس حرمت کو مزید سنگین کر دیتا ہے۔ اسے پیشے کے طور پر اختیار کرنا درج ذیل آیت کےپیش نظر ناجائز اور قابل نفرت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بلا شبہ جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔‘‘ [1]

ناچ گانے کی عکس بندی کرنا بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینا ہے، ایک مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ اس قسم کا کاروبار کرے جو اللہ کی نا فرمانی پر مبنی ہو۔ چنانچہ سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھاہوا تھا، اس دوران ایک آدمی آیا اور عرض کرنے لگا:’’اے ابن عباس! ہاتھ کی فنکاری میرا ذریعہ معاش ہے اور اپنے ہاتھ سے تصویریں بنا کر فروخت کرتا ہوں۔ ‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایاکہ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے بھی کوئی تصویر بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب میں مبتلا رکھے گا، جب تک وہ شخص بنائی ہوئی تصویر میں روح نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکے گا۔ ‘‘ یہ حدیث سن کر اس شخص پر کپکپی طاری ہو گئی اور اس کا رنگ فق ہو گیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:’’اگر تم تصویریں بنانا ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر چیز کی جس میں روح نہیں، بنا سکتے ہو۔ ‘‘[2]

اس حدیث کی بنا پر ہر وہ کاروبار نا جائز اور حرام ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مبنی ہو۔لہٰذا اس قسم کے کاروبار سے ایک مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] النور:۱۹۔

[2] صحیح البخاری:البیوع:۲۲۲۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:261

محدث فتویٰ

تبصرے