السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسٹیٹ بینک کے ملازمین کرنسی کے نئے نوٹ تبدیل کرنے کے زائد پیسے لیتے ہیں، کیا شرعی طور پر ایسا کیا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک ملک کے کرنسی نوٹوں کا تبادلہ مسا وات اور برابری کی بنیاد پر کرنا جائز ہے کیونکہ نئے اور پرانے نوٹوں کی حیثیت اور مالیت ایک ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نئے نوٹوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کیا جائے تو ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے، شریعت نے اسے صریح سود قرار دیا ہے۔ مثلاً ۱۱۰ روپے کے عوض ۱۰۰روپے کے نئے نوٹ لینا جائز نہیں ہو گا ، کیونکہ یہ ایک ہی جنس کے تبادلہ میں کمی بیشی کرنا ہے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک ہی قسم کی کھجوروں کو دوسری قسم کی کھجوروں کے ساتھ اضافہ سے تبادلہ کرنا ناجائز ہے۔ [1]
بلکہ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صریح سود قرار دیا ہے ۔[2] چنانچہ جہاں مقدارکا اعتبار ہوتا ہے وہاں دیگر اوصاف(نئے اور پرانے ہونے)کا اعتبار نہیں کیا جا تا ۔ لہٰذا ایک روپیہ کا سکہ یا نوٹ خواہ وہ کتنا ہی نیا اور چمکدار ہو اس کی قیمت ایک روپیہ ہی رہے گی ۔ اس طرح وہ سکہ یا نوٹ خواہ کتنا ہی پرانا اور میلا کچیلا ہو جائے اس کی قیمت بھی ایک روپیہ سے کم نہیں ہو گی حالانکہ دونوں کے اوصاف میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، بازاری اصطلاح میں بھی یہ فرق کالعدم ہو چکا ہے۔ اس بنا پر اگر ایک روپیہ کو دو روپیہ کے عوض فروخت کیا جائے تو شرعاً ناجائز اور صریح سود ہو گا۔ ہاں اگر نوٹ یا سکہ کی حیثیت ختم ہو جائے اور وہ بذات خود بحیثیت مادہ مقصود ہوں اور ان کی ظاہری قیمت کالعدم ہو جائے مثلاً ہمارے ہاں آج کل ایک روپیہ، دو روپیہ اور پانچ روپیہ کا نوٹ ختم ہو چکا ہے، اگر کوئی ان نوٹوں کو بطور یاد گار خریدتا ہے اور زیادہ قیمت اد ا کرتا ہےتو بظاہر اس قسم کی کمی بیشی کی گنجائش ہے۔ اس طرح ہمارے ہاں سوراخ والا تانبے کا پیسہ بھی ختم ہو چکا ہے ، اسی طرح تانبے کا روپے والا سکہ بھی ناپید ہے، اگر کوئی زر گر انہیں زیادہ قیمت ادا کر کے خریدتا ہے تاکہ سونا میں ملاوٹ یا ٹانکہ لگانے میں استعمال کرے تو شرعاً ایسا جائز ہے ۔ لیکن سدِ باب کے طورپر اسے بھی گریز کرنا چاہیے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نئے نوٹوں کے پانچ (۵۰۰)سو روپے والا بنڈل پانچ سو پچاس (۵۵۰)روپے میں فروخت کرنا یا اسے خریدنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ اس میں مساوی جنس کا تبادلہ مساوی جنس سےاضافہ کے ساتھ کیا جا تاہے، احادیث میں اسے صریح سود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری،البیوع، ۲۲۰۳۔5
[2] بخاری، الو کاله:۲۳۱۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب