سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(271) گڑیوں کی خرید و فروخت

  • 20532
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1423

سوال

(271) گڑیوں کی خرید و فروخت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بازار میں بچوں کے کھلونے دستیاب ہیں ، ان میں متحرک کھلونے بھی ہیں ، مثلاً گڑیاں وغیرہ کیا ان کی خرید وفروخت جائز ہے اور انہیں گھر میں رکھا جا سکتا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بچوں کے لیے کھلونے بنانا اور انہیں بازار میں فروخت ازخود ناجائز نہیں، بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت موجود نہ ہو ۔ بچوں کے لیے گڑیوں کی دو صورتیں ہیں :

1             انہیں پوری باریکی سے تمام خد و خال کے ساتھ بنایا گیا ہو، جو نقل مطابق اصل ہو تی ہے ، ان کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ انہیں بنانا، ان کی خرید و فروخت کرنا اور انہیں گھروں میں رکھنا جائز نہیں ۔ یہ ان ممنوعہ تصاویر سے ہیں جنہیں بنانے یا گھر میں رکھنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی۔

محض ایک سرسری سا ڈھانچہ جو کسی جاندار کا ہوتا ہےجیسے لکڑی کے گھوڑےیا کپڑے کی گڑیاں۔ ان کے خد و خال نمایاں نہیں ہو تے، بلکہ عام طور پر گھروں میں بچیاں اپنے طور پر ہاتھ سے گڑیاں وغیرہ بنا لیتی ہیں، اس قسم کی گڑیاں بنائی جا سکتی ہے، انہیں بیچنا اور خریدنا بھی جائز ہے اور گھر میں رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہےکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔[1] ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ گڑیاں کھلونوں کی قسم سے تھیں۔ [2]

دیگر روایات میں ہے کہ ان کھلونوں میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور اس کے دو پر بھی تھے۔[3]

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن گڑیوں کے خدو خال نمایاں نہ ہوں اور وہ بچیوں کے امور خانہ داری سکھانے کے لیے کار آمد ہوں تو انہیں بازار سے خریدنے یا خود تیار کرنے میں چنداں حرج نہیں لیکن دور حاضر میں کھلونوں کی جو ترقی یافتہ صورت ہے کہ پلاسٹک، کپڑے اور پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں جو اصل کے ہو بہو مشابہت رکھتے ہیں، ایسے کھلونوں سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح گھروں میں کچھ جانوروں کی تصاویر بطور آرائش رکھی جا تی ہیں اور انہیں کھلونوں کا نام دیا جا تا ہے، انہیں رکھنے کی بھی کسی طرح اجازت نہیں دی جا سکتی۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری الادب:۶۱۳۰۔

[2] صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ:۶۲۸۸۔

[3] ابو داؤد، الادب:۴۹۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:254

محدث فتویٰ

تبصرے