سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) بیمہ کی شرعی حیثیت

  • 20530
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1712

سوال

(269) بیمہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہمارے ملک میں مختلف بیمہ کمپنیاں سر گرم عمل ہیں جو بیمہ کے جواز میں بڑے بڑے جید علما کے فتوے پیش کر تی ہیں، کیا ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنا شرعاً جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بیمہ نظریے اور نظام کے اعتبارسے باہمی امداد اور تعاون محض پر قائم ہے لیکن اس کی تر ویج کے لیے جو وسائل و ذرائع استعمال کیے گئے ہیں وہ خود اس نظریے کی نفی کر تے ہیں کیونکہ جب اسے کاروباری شکل دی گئی تو اس میں سود ، دھوکہ اور جوئے جیسے بد ترین عوامل کو شامل کر دیا گیا ۔جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کر تے ہیں۔ بیمہ اشخاص اور کمپنیوں کے درمیان ایک خاص عقد کا نام ہے اس کی تعریف عام طور پر درج ذیل کی جا تی ہے۔

 ’’یہ ایک تجارتی معاہدہ ہے جس میں ایک طرف صارف مقررہ مدت تک طے شدہ رقم اقساط کی صورت میں یا ایک ہی دفعہ ادا کر دیتا ہے ، دوسری طرف ایک کمپنی ہو تی ہے جو اس ادا کر دہ رقم کے عوض صارف کو ایک مقررہ مدت میں کچھ خاص چیزوں کی ضمانت دیتی ہے کہ اگر اس صارف کو کسی قسم کا نقصان ہوا تو کمپنی اس نقصان کی تلافی کرے گی، اگر نقصان نہ ہوا تو کمپنی مدت ختم ہو نے کے بعد مکمل رقم یا کچھ رقم رکھ لیتی ہے اگر صارف قسطیں نہ ادا کرسکے تو معاہدہ ختم اور ادا کر دہ رقم ضبط کر لی جا تی ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق اس قسم کا معاہدہ درج ذیل اسباب کی بنا پر حرام اور ناجائز ہے :اس معاہدہ میں دھوکہ اور لا علمی ہے جسے عربی میں غرر کہا جا تا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس بیع سے منع کیا ہے جس میں دھوکہ کا عنصر شامل ہو۔[1]

علماء کرام نے غرر کی تعریف بایں طور کی ہے کہ ہر غیر معمولی ، غیر طبعی اور غیر یقینی صورت حال غرر ہے جس کے پیش نظر کسی معاملہ یا لین دین کے ضروری پہلو متعین نہ کیے جا سکیں اور فریقین آخر وقت تک اس معاملہ میں غیر یقینی صورت حال سے دو چارر ہیں کہ ان کے معاملہ کی اصل صورت بالآخر کیا ہو گی۔

بیمہ میں دھوکہ اس طرح ہے کہ جس نقصان کی ادائیگی طے کی گئی ہے اس کے ہو نے نہ ہو نے کے دونوں پہلو ہیں، وہ نقصان یا حادثہ مقررہ مدت میں ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا، صارف کو آخر وقت تک وہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ وہ اقساط ادا کرتا ہے اگر مدت ختم ہو گئی اور حادثہ پیش آیا نہ تو اس کی ادا کر دہ اقساط ضبط کر لی جائیں گی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ کمپنی ایک ہی قسط وصول کر نے کے بعد حادثہ پیش آنے کی صورت میں نقصان کی تلافی کرنے پر مجبور ہو تی ہے، بعض اوقات پوری اقساط وصول کر لیتی ہے لیکن حادثہ پیش نہیں آتا۔ بہر حال یہ معاملہد سرا سر ایک ’’اندھا سودا‘‘ ہے جس میں دھو کے کا پہلو نمایاں طور پر موجود ہے۔

اس معاہدہ میں جوا پایا جا تا ہے اور جوا کی تعریف یہ ہے کہ ایسا معاہدہ جس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی شریک ہوں ، ان میں سے صرف ایک کو نفع ہو اور باقی نقصان میں رہیں اور اس نفع کا مدار بھی محض اتفاق ہو ، جوا میں کسی کو علم نہیں ہو تا کہ کون نقصان میں رہے گا اور کسے نفع ملے گا، بیمہ کا معاہدہ بھی یہی ہو تا ہے اس معاملہ میں دو شریک ہیں ایک صارف اور دوسرا کمپنی ، ان میں سے کسی کو علم نہیں ہو تا کہ کون نفع لے گا اور کسے نقصان پہنچے گا ، اگر معاہدہ ہو تے ہی نقصان ہو گیا تو کمپنی کی طرف سے خطیر رقم مل جا تی ہے جو اس نے ادا نہیں کی ہو تی۔ اس طرح اگر مدت پوری ہونے کے بعد حادثہ نہ ہوا تو صارف کی ادا کر دہ رقم ضائع اور تمام رقم کمپنی کو مل جائے گی اور صارف کو کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ اس کاروبار کی بنیاد حادثہ ہے جو ایک اتفاقی چیز ہے ۔ یہی معاملہ جوئے میں ہو تا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو !شراب ، جوا ، بت اور پانسے ناپاک کام اور شیطانی عمل ہیں، ان سے اجتناب کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔ ‘‘[2]

اس کاروبار کے حرام ہونے کا تیسرا سبب یہ ہےکہ اس میں سود شامل ہوتا ہے ۔ بلکہ یہ سارا معاہدہ ہی سود پر مشتمل ہو تاہے کیونکہ صارف جو رقم اقساط کی صورت میں ادا کر تا ہے ، حادثہ کے وقت اسے ادا کردہ رقم سے کہیں زیادہ مل جا تی ہے اور اسی کا نام سود ہے کیونکہ صارف کو زائد رقم اس رقم کے عوض ملتی ہے جو اس نے اقساط کی صورت میں ادا کی تھی ۔ سود میں بھی یہی ہو تاہے کہ ایک آدمی کچھ رقم دوسرے کو دیتا ہے پھر خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض کچھ زائد رقم وصول کر تاہے ، جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’اگر تم توبہ کر لو تو صرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔‘‘[3]

یہ کاروبار اس لیے بھی ناجائز ہے کہ اس پر عمل کر نے سے اسلام کا ضابطہ وراثت مجروح ہو تا ہے کیونکہ مرنے کی صورت میں زر بیمہ کا مالک وہ نامدار شخص بن جا تا ہے جو صارف نے اپنی زندگی میں نامزد کیا ہو تا ہے باقی ورثا اس سے محروم ہو تے ہیں، حالانکہ ضابطہ وراثت کے مطابق تمام شرعی ورثا اس میں شریک ہو تے ہیں ۔ اس تفصیل سے معلوم ہو اکہ بیمہ کا کاروبار قطعی طور پر نا جائز اور حرام ہے کیونکہ یہ دھوکے ، جوا ، سود اور دیگر قباحتوں پر مشتمل ہے، اس لیے ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بیمہ کے حرام ہونے کے متعلق ہم نے ایک تفصیلی فتویٰ جاری کیا تھا جو فتاویٰ اصحاب الحدیث( ص ۲۷۰ ج ۱)میں دیکھا جا سکتا ہے۔


[1] صحیح مسلم ، البیوع:۳۸۰۸۔

[2] المائدہ :۹۰۔

[3] البقرة۲۷۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:251

محدث فتویٰ

تبصرے