سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) بلی کی خرید و فروخت

  • 20523
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5003

سوال

(262) بلی کی خرید و فروخت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے پڑوسی برطانیہ سے بلی لائے ہیں جس کی قیمت پاکستانی پچاس ہزار روپے ہے، میں نے انہیں بتایا کہ اس کی خرید و فروخت شرعاً نا جائز ہے، انھوں نے مجھ سے دلیل کا مطالبہ کیا تو میں خاموش ہو گیا، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت نے کتے اور بلی کو حرام کہا ہے کیونکہ یہ درندے ہیں اور مر دار کھا تے ہیں اور جو جانور حرام ہیں ان کی قیمت بھی حرام ہو تی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کوئی چیز کھانا حرام قرار دے دیتے ہیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں۔‘‘ [1]

بلی اور کتےکے متعلق تو خاص طور پر احادیث میں آیا ہے کہ اس کی قیمت حرام ہے جیسا کہ ابو زبیر بیان کر تے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بلی اور کتے کی قیمت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے جھڑکا ہے۔[2]ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا۔ ‘‘[3]اس حدیث کے مطابق کتے کا لفظ عام ہے، شکاری ہو یا غیر شکاری یا جا سوسی وغیرہ کے لیے ہو، اس عموم کے پیش نظر ہر قسم کے کتوں کی خرید و فروخت نہیں ہونا چاہیے لیکن دوسرے دلائل کی بنا پر وہ کتے مستثنیٰ ہیں جن کے رکھنے کو احادیث میں جائز قرار دیا گیا ہے جیسا کہ شکار کے لیے، رکھوالی کے لیے یا جیسے آج کل جاسوسی کے لیے کتے استعمال کیے جا تے ہیں۔جب ان کا رکھنا جائز ہے تو ان کی خرید و فروخت بھی یقیناً جائز ہو گی کیونکہ اس کے بغیر مذکورہ کاموں کے لیے کتوں کا ملنا نا ممکن ہو جائے گا یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں استثناءبھی آیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہےلیکن شکاری کتا اس سے مستثنیٰ ہے۔[4]

اس کے جواز کی علت اس کا انتفاع ہے، اسی وجہ سے رکھوالی اور جاسوسی وغیرہ جیسے مقاصد کے لیے بھی کتوں کی خرید و فروخت جائز ہو گی لیکن بلی کے متعلق کسی قسم کا استثنیٰ احادیث میں مروی نہیں ہے ، اس لیے بلی خواہ کسی مقصد کے لیے ہو اس کی خرید و فروخت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر چہ بیش بہا قیمت کی وجہ اس کی خوبصورتی بتائی جا تی ہے لیکن اس وجہ سے اس کی خرید و فروخت کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (واللہ اعلم)


[1] مسند امام احمد:ص۳۱۷،ج۳۔

[2] صحیح مسلم، المسا قاة:۷۵۶۹۔

[3] ابو داؤد، الاجارة:۳۴۹۷۔

[4] سنن النسائی، البیوع:۴۶۷۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:244

محدث فتویٰ

تبصرے