سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(258) ہلالِ رمضان کے لیے گواہی

  • 20519
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 750

سوال

(258) ہلالِ رمضان کے لیے گواہی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 رمضان کے چاند کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی کا اعتبار کیاجائے گا، نیز عید الفطر بھی کسی کی گواہی پر کی جا سکتی ہے ، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان المبارک کا چاند دیکھنے میں ایک آدمی کی گواہی کافی ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کہ رمضان المبارک کے لیے ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے، البتہ اس مسلمان کا قابل اعتبار ہونا ضروری ہے یعنی وہ جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو ، اس کے علاوہ وہ فرائض شرع کا پابند ہو اور دین اسلام کو مذاق نہ بنا تا ہو۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ لو گوں نے (رمضان کا)چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔[1]

اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ رمضان المبارک کے چاند کے لیے قابل وثوق ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ اگر چہ کچھ فقہاکا خیال ہے کہ ماہِ رمضان کے لیے بھی دیگر مالی معاملات کی طرح دو مسلمانون کی گواہی ضروری ہے لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہونےکےلیےکچھ روایات دیگرکتب حدیث میں بھی مروی ہیں۔جیسا کہ(ابوداؤد الصیام: ۲۳۴۱۔ ۲۳۴۰ ) میں ہے ۔ لیکن یہ روایات ضعیف ہیں۔ البتہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت صحیح سند سے ثابت ہے۔ البتہ عید کے بارے میں ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ اس کے لیے کم از کم دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لو گوں کا ذاتی مفاد بھی ہو تا ہے لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں کم از کم دو گواہ ہو نے چاہئیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’چاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کر و اور چاند دیکھ کر ہی روزے رکھنا بند کرو نیز چاند دیکھ کر ہی حج اور قربانی کرو، اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کر لو۔ اگر دو شخص چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو بھی روزے رکھنا شروع یا بند کر دو۔ [2]


[1] ابو داؤد، الصیام: ۲۳۴۲۔

[2] نسائی، الصیام:۲۱۱۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:239

محدث فتویٰ

تبصرے