سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(257) روزہ کے لیے مانع حیض گولیوں کا استعمال

  • 20518
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1083

سوال

(257) روزہ کے لیے مانع حیض گولیوں کا استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 اکثر دین دار خواتین رمضان المبارک میں مانع حیض گولیاں استعما ل کرتی ہیں تاکہ رمضان میں مکمل ماہ کے روزوں کی سعادت حاصل کر سکیں، کیا کتاب و سنت کی روشنی میں ایسا کرنا جائز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کو ئی عورت رمضان میں حالتِ ایام میں ہے تو اس پر روزہ ترک کرنا لازم ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’کہ جب عورت حالتِ حیض میں ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین کا نقصان ہے۔ ‘‘[1]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’حائضہ عورت کو روزہ اور نماز چھوڑ دینا چاہیے۔ ‘‘

اس کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں :’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب حیض آتا تو ہمیں روزہ قضا کرنے کا حکم دیا جا تا اور نماز کی قضا کا نہیں کہا جا تا تھا۔ ‘‘[2]

ان احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ حائضہ عورت پر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا ضروری نہیں بلکہ روزہ ترک کر نا واجب ہے اور بعد میں متروکہ روزوں کی قضا دینا ہو گی۔ کیونکہ حیض ایک ایسا معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم پر رکھ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خواتین اسلام اس کا تکلف نہیں کر تی تھیں کہ ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے لیے اپنے حیض کو روکنے کا بندوبست کرتیں۔

اس بنا پر ہمارا موقف یہ ہے کہ عورتوں کے لیے شوق عبادت میں اپنے حیض کو روکنے کی تدابیر کرنا مستحسن اقدام نہیں، اس کے علاوہ اسے روکنے سے نقصانات کا بھی اندیشہ ہے۔ ہاں اگر کوئی عورت مانع حیض گولیاں استعمال کر تی ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں ہو تا اور اس کا حیض بھی رُک جا تا ہے تو ایسے حالا ت میں اسے پاک ہی شما کیا جائے گا ، اسے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنا ضروری ہے ۔ اس قسم کے روزوں کا اعادہ ضروری نہیں، تاہم خواتین کو اس قسم کے اقدام سے باز رہنا چاہیے۔ کیونکہ اسلاف خواتین سے اس قسم کا کوئی عمل ثابت نہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری ، الصوم:۱۹۵۱۔

[2] مسلم، الصیام، ۳۳۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:238

محدث فتویٰ

تبصرے