سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزے

  • 20515
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 927

سوال

(254) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ معاف ہے یا اسے بعد میں قضا دینا ہو گی، اس کے متعلق صحیح موقف کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاملہ اور اپنے بچے کو دودھ پلانے والی عورت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز اور روزہ معاف کر دیا ہے، اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی۔ ‘‘[1]

امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف ہے کہ جب حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اللہ تعالیٰ نے روزہ معاف کر دیا ہے تو اسے قضا یا فدیہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ ان پر قضا اور فدیہ واجب کرنا ایسا فیصلہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ۔ قضا تو صرف مریض ، مسافر، حائضہ اور نفاس والی عورت کے ذمے ہے ۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اس کی ضرورت نہیں۔ [2]

لیکن جمہور اہل علم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا، ان کے نزدیک حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر بچے کے نقصان کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ ترک کر دہ روزہ کے بدلے وہ فدیہ دے دے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے اور صحابہ میں ان کا کوئی مخالف بھی نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی حاملہ لونڈی کو حکم دیتے تھے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے فدیہ دے دے۔[3]

اسی طرح حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی شادی شدہ بیٹی حاملہ تھیں تو انھوں نے فرمایا:’’تم روزہ چھوڑ دو اور اس کے بدلے ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلادیا کرو۔ [4]

بہر حال حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ معاف نہیں بلکہ اسے چھوڑ دینے کی اجازت ہے لیکن اسے ترک کر دہ روزوں کا فدیہ دینا ہو گا۔ (واللہ اعلم)


[1] نسائی ، الصیام:۲۲۷۶۔

[2] محلی ابن حزم، ص ۲۶۵، ج۶۔

[3] دار قطنی، ص ۲۰۶، ج ۲۔

[4] دار قطنی، ص ۲۰۷،ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:236

محدث فتویٰ

تبصرے