سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) سحری کا وقت

  • 20510
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3157

سوال

(249) سحری کا وقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 شریعت میں سحری کی کیاحیثیت ہے ، کیا سحری کے بغیر روزہ ہو جا تا ہے ، کچھ لوگ اذان فجر سے بہت پہلے سحری کھا کر سو جا تے ہیں ، اس کا کہاں تک جواز ہے نیز اس وقت کے بارے میں بھی آگاہ کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سحری کا لفظ سحر سے مشتق ہے جس کا معنی ہے رات کا آخری حصہ، اس لغوی معنی کے پیش نظر سحری وہ ہے جو رات کے آخری حصہ یعنی طلوع فجر سے عین پہلے کھانا کھایا جائے ۔ بہت زیادہ پہلے کھانا عام کھانا تو ہو سکتا ہے لیکن اسے سحری کا نام دینا محل نظر ہے۔ چنانچہ حضرت زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے نکلے، جب ہم مسجد میں آئے تو دورکعت(سنت) ادا کیں ، اتنے میں جماعت کھڑی ہو گئی۔ سنتوں اور اقامت کے درمیان بالکل معمولی وقفہ تھا۔[1]

اسی طرح حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے اٹھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: درمیان میں کتنا فاصلہ تھا تو انھوں نے فرمایا: اس قدر کہ آدمی پچاس آیات پڑھ سکے۔ [2]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’سحری اور نماز فجر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے ۔‘‘ [3]

اطمینان اور سکون کے ساتھ پچاس آیات پڑھنے میں کم از کم دس پندرہ منٹ تو ضرور صرف ہو تے ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں اپنے گھر میں سحری کر تا پھر میں جلدی سے مسجد کی طرف جاتا تاکہ نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ادا کر لوں۔[4]

ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ سحری میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ اہل علم اس تاخیر کی یہ حکمت بیان کر تے ہیں کہ ایسا کرنا انسانی طبیعت کے مطابق ہے۔ کیونکہ سارا دن مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا ہوتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ عین آخری وقت میں سحری کی جائے تاکہ عبادات میں سہارا رہے۔ سحری بہت ہی بابرکت کھانا ہے بلکہ امت محمدیہ کا یہ ایک امتیاز ہے اور امتیازات کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بلا شبہ سحری برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف تمہیں عطا فرمائی ہے لہٰذا تم اسے مت چھوڑو۔ ‘‘[5]

سحری کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے ترک کر نے سے یہود و نصاریٰ سے مشابہت کا اندیشہ ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:’’ ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔ ‘‘[6]

بہر حال سحری کھانا باعث برکت ہے اور اس کے تناول کر نے پر بہت تاکید ہے اگر کبھی مجبوراً چھوٹ جائے تو چنداں حرج نہیں، مثلاً اگر کوئی بر وقت بیدار نہیں ہو سکا تو وہ سحری کھائے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’ سحری باعث برکت ضرور ہے لیکن واجب نہیں۔ ‘‘[7]

تفصیلات بالا سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آدھی رات سحری کھا کر سو جا تے ہیں ان کا یہ عمل قطعاً قابل ستائش نہیں۔ کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ نماز فجر بر وقت ادا نہ کر سکیں یا پھر نماز با جماعت ادا نہ ہو سکے۔ بہر حال سحری کا کھانا ضرور کھایا جائے اور اسے اذان فجر سے تھوڑا سا وقت پہلے کھانا چاہیے۔ بالکل نہ کھانا برکت سے محرومی اور بہت پہلے کھانے سے نماز فجر با جماعت یا بر وقت ادا نہ کر سکنے کا خطرہ ہے۔


[1] ابن ماجه ، الصیام: ۲۱۵۵۔

[2] بخاری ، الصوم: ۱۹۲۱۔

[3] بخاری، الصوم باب نمبر ۱۹۔

[4] بخاری، مواقیت الصلوة: ۵۷۷۔

[5] نسائی، الصیام: ۲۱۶۴۔

[6] مسلم، الصیام: ۱۰۹۶۔

[7] صحیح بخاری، الصوم باب نمبر ۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:231

محدث فتویٰ

تبصرے