سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(241) سحری کرتے کرتے اگر اذان شروع ہو جائے

  • 20502
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5471

سوال

(241) سحری کرتے کرتے اگر اذان شروع ہو جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماہ رمضان میں کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ ہم کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں کہ اس دوران اذان شروع ہو جا تی ہے تو کیااپنی سحری کو مکمل کر لیا جائے یا اذان سنتے ہی کھانا بند کر دیا جائے، وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ دار کے لیے ضروری ہے کہ جب طلوع فجر ہو جائے تو کھانا پینا بند کر دے۔ ارشاد باری تعالیٰ :’’اور کھاؤ ، پیؤ یہاں تک کہ تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری، سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے پھر اپنے روزے کو رات تک پورا کرو۔ [1]

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص سحری کر رہا ہو اور اسے معلوم ہو جائے کہ فجر طلوع ہو چکی ہے تو کھانا پینا بند کر دے، ہاں اگر مؤذن طلوع فجر سے پہلے اذان دے رہا ہو تو کھانے پینے سے رُک جانا ضروری نہیں ہے ، لیکن احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ اگر کھانے کے دوران اذان شروع ہو جائے اور روزہ رکھنے والے کو ابھی کھانے پینے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی ضرورت پوری کر لے جیسا کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی جب اذان فجر سنے اور بر تن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے رکھنے سے پہلے اپنی ضرورت پوری کر لے۔ ‘‘[2]

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سحری کا وقت تنگ ہو رہا ہو اور اذان فجر اپنے وقت پر شروع ہو جائے تو اجازت ہے کہ روزہ رکھنے والا پانی پی لے اور دو چار لقمے لے لے ، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص روزہ رکھنا چاہتا ہو اور اس کے ہاتھ میں پانی پینے کا برتن ہو تا کہ وہ اسے نوش کرے، اس دوران اذان شروع ہو جا تی ہے تو وہ کیا کرے ؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پینے کی اجازت دے دی۔[3] ایسی حالت میں تھوڑا بہت کھانا اور پانی پینے کی اجازت ہے مگر چائے کی طرح مشروب کی چسکیاں لینا درست نہیں ہے اور نہ ہی ایسی حالت میں سگریٹ کے کش بھرنا جائز ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] البقرة: ۱۸۷۔

[2] ابو داؤد، الصیام:۲۳۵۰۔

[3] مسند امام احمد ، ص ۳۴۸، ج۳ ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:226

محدث فتویٰ

تبصرے