سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(234) اذان کے بعد سحری کھانا

  • 20495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2595

سوال

(234) اذان کے بعد سحری کھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں جب صبح بیدار ہوا تو اذان ہو رہی تھی ، میں نے جلدی جلدی کھانا کھا کر روزہ رکھ لیا اور بیوی نے تو اذان کے بعد پانی پی کر روزہ رکھا۔ ایسے حالات میں ہمیں کیا حکم ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے روزے دار کے لیے کھانے پینے کی حد بایں الفاظ بیان کی ہے:’’تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے پھر رات تک اپنے روزے کو پورا کرو۔ ‘‘[1]

اس کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق کے بعد کھانا پینا روزے کو باطل کر دیتا ہے ہاں اگر کھانے کے دوران اذان شروع ہو جائے تو اپنا کھانا وغیرہ پورا کر لینے میں چنداں حرج نہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی حاجت کو پورا کر لینا چاہیے۔ [2]

یہ بھی اس صورت میں ہے جب مؤذن نے صحیح وقت پر اذان دی ہو، اگر مؤذن نے دیر سے اذان دی ہے تو اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے ، لیکن اذان مکمل ہو نے کے بعد جلدی جلدی کھانا پینا یا صرف پانی پی کر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ ایسے انسان کو چاہیے کہ وہ اگر ہمت رکھتا ہے تو کچھ کھائے پیے وغیر روزہ رکھ لے کیونکہ روزہ کے لیے سحری مستحب عمل ہے اگر کبھی سحری کے بغیر روزہ رکھ لیا جائے تو اس سے روزے میں کوئی نقص نہیں پڑتا۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے۔ ’’سحری بابرکت کھانا ہے لیکن واجب نہیں۔ ‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کا استدلال یہ ہے کہ اگر چہ سحری کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر مر وی ہے لیکن یہ امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کر نے والوں کو تنبیہ تو کی ہے لیکن ان کے روزے کو باطل قرار نہیں دیا ۔ بہر حال اذان کے بعد کچھ کھا پی کر روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے بلکہ اذان ہو تے ہوئے بھی کھانے پینے کی ابتدا کرنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم )


[1] البقرة : ۱۸۷۔

[2] مسند امام احمد، ص۵۱۰ ، ج۲ ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:221

محدث فتویٰ

تبصرے