سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(205) جمرات کو جوتے مارنا اور گالیاں نکالنا

  • 20466
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 759

سوال

(205) جمرات کو جوتے مارنا اور گالیاں نکالنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج کے موقع پر اکثردیکھا جاتا ہے کہ جمرہ عقبہ ( بڑے شیطان) کو چھوٹی کنکریاں مارنے کے بجائے بڑے بڑے پتھر یا جوتے مارے جاتے ہیں، بعض لوگ وہاں تھوکتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں،یا کنکریاں مارتے وقت ایسا کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حاجی کو چاہیے کہ وہ منیٰ پہنچنے سے پہلے ہی جمرات کو مارنے کے لئے راستہ سے کنکریاں اٹھائے، وہ مزدلفہ ، منیٰ یا کسی اور جگہ سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں اور ان کا حجم لوبیے کے برابر چنے کے دانے سے ذرا بڑا ہونا چاہیے، کنکریوں کے علاوہ کوئی اور چیز کے ساتھ رمی جائز نہیں ۔ چنانچہ سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس ذوالحجہ کو اپنی سواری پر بیٹھے بیٹھے حکم دیا کہ ’’ مجھے کنکریاں چن دو‘‘ میں نے سات کنکریاں چن دیں جو انگلیوں کے پوروں میں آ سکتی تھیں۔ آپ انہیں ہاتھ میں لے کر حرکت دینے لگے اور ان کی مٹی جھاڑنے لگے پھر آپ نے فرمایا: ’’ پس کنکریاں مارو اور اے لوگو! دین میں غلو کرنے سے بچو۔ بے شک پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے تباہ کر دیا تھا۔‘‘[1]

اس حدیث کی روشنی میں بڑے شیطان کو جوتے مارنا ، اس پر تھوکنا اور اسے گالیاں دینا جائز نہیں۔ اسی طرح اسے بڑے بڑے پتھر مارنا بھی جائز نہیں ، یقیناً اگر کوئی ایسا کام کرتا ہے تو وہ شیطان کو خوش کرتا ہے۔ کس قدر بد قسمتی کی بات ہے کہ اسے رمی کرتے وقت اس کی خوشی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے ، مذکورہ حدیث کی روشنی میں حاجی کو چاہیے کہ وہ صرف کنکریاں مارنے پر اکتفاء کرے اور دین میں غلو سے اجتناب کرے۔ ( واللہ اعلم)


[1]  سنن النسائي ، المناسك : ۳۰۵۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:203

محدث فتویٰ

تبصرے