السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لو گوں نے بھینسوں اور گائیوں کے فارم بنا رکھے ہیں، ان سے زکوۃ کیسے ادا ہو گی، زکوۃ کے لیے جانوروں کا حساب ہو گا یا ان کی پیدا وار یعنی دودھ وغیرہ کے حساب سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی ، قرآن و حدیث کے مطابق وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پالتو جانوروں کی چار اقسام حسب ذیل ہیں۔
1 وہ جانور جو سال کے اکثر حصہ میں باہر چر تے ہوں، ان کے لیے قیمتاً چارہ نہیں خریدا جا تا، ایسے جانوروں کی زکوۃ کے لیے تین شرائط ہیں۔ (الف) نصاب کو پہنچ جائیں ۔ (ب) ان پر سال گزر جائے ۔ (ج) وہ جنگلات میں چرنے والے ہوں۔
2 جانور گھروں یا ڈیری فارم میں رکھے ہو تے ہیں، ان کے لیے چارہ خریدا جا تا ہے یا کاشت کیا جا تا ہے وہ صرف دودھ یا افزائش نسل کے لیے رکھے جا تے ہیں، ایسے جانوروں کی پیدا وار (دودھ) کی آمدن اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔
3 وہ جانور جو کھیتی باڑی یا سواری کے لیے رکھے جا تے ہیں ، ان میں زکوۃ نہیں ہو تی۔
4 وہ جانور جو تجارت کے لیے رکھے جا تے ہیں، ان کی قیمت میں زکوۃ ہو گی ، مثلاً ایک بھینس اگر لاکھ روپے کی ہے تو اس میں اڑھائی ہزار روپیہ بطور زکوۃ ادا کرنا ہو گا۔ صورت مسؤلہ میں اسی تفصیل کے مطابق اگر ڈیری فارم میں گائے بھینس صرف دودھ کے لیے رکھی گئی ہیں تو ان کے دودھ کا حساب ہو گا اس سے حاصل ہو نے والی رقم اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔ اس صورت میں بھینسوں اور گائیوں کی مالیت پر زکوۃ نہیں اور اگر انہیں برائے فروخت رکھاگیا ہے یا انہیں گوشت کے لیے پالا گیا ہے یا بکریاں قربانی کے دنو ں میں فروخت کر نے کے لیے رکھی گئی ہیں تو ان کی مجموعی مالیت پر زکوۃ ہوگی۔ ہمارے ہاں جو ڈیری فارم ہیں ان میں جانور دودھ کے لیے رکھے جا تے ہیں لہٰذا اس دودھ سے حاصل ہو نے والی رقم اگر نصاب کو پہنچ جا ئے تو اس سے چالیسواں حصہ بطور زکوۃ ادا کیا جائے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب