السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں رائج کرنسی یعنی روپیہ میں کس حساب سے زکوۃ دی جائے، سونے کا نصاب معتبر ہو گا یا چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سونا چاندی دھات کے علاوہ زر مبادلہ کے طور پر بھی استعمال ہو تے تھے، سو نے کا سکہ دینار اور چاندی کا سکہ درہم رائج تھا، اس وقت سونے اور چاندی دونوں دھاتوں کا نصاب مقرر تھا، سونے کا نصاب ۲۰ دینار یعنی ساڑھے سات تولے یا ۸۵ گرام تھا جب کہ چاندی کا نصاب ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولے یا ۵۹۵ گرام تھا، اس وقت ان کی قیمتوں میں صرف ایک اور سات کی نسبت تھی، دوسرے الفاظ میں سو نے کا بھاؤ چاندی کے مقابلہ میں صرف سات گنا زیادہ تھا، اس کے بعد سونے کی قیمت تو بڑھتی رہی اور چاندی کی قیمت گر تی رہی حتی کہ ۱۹۳۷ء کی جنگ عظٰم سے پہلے سونے اور چاندی کی مالیت کا تناسب ایک اور تیس کا تھا ، اب تو نسبت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔ سونا تقریباً ساٹھ ہزار روپے تولہ اور چاندی صرف پانچ صد روپے تولہ ہے، اس کی ہمارے نزدیک دو وجوہ ہیں:
1 چاندی کے بجائے سونے کو زر مبادلہ قرار دیا گیا ہے۔ 2 چاندی کے زیورات آہستہ آہستہ متروک ہو چکے ہیں۔
ہمارے ہاں رائج کرنسی نوٹ زر مبادلہ کے طور پر ہو تے ہیں، ان کی زکوۃ کے متعلق دو مختلف نظریات ہیں: کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ کرنسی کے نصاب کے لیے اتنے روپے ہونے چاہئیں جن سے ساڑھے سات تولے سونا خریدا جا سکے یعنی کم از کم چار لاکھ پچاس ہزار روپے پر زکوۃ لا گو ہو گی کیونکہ ساٹھ ہزار روپے تولہ کے حساب سے ساڑھے سات تولہ سو نے کی قیمت چار لاکھ پچاس ہزار بنتی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں زر مبادلہ کے طور پر سونے کو معیار بنایا جا تا ہے یعنی ہر ملک اتنے ہی نوٹ چھاپتا ہے جتنے اس کے پاس سونے کے ذخائر ہو تے ہیں۔
اس کے بر عکس کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نقدی کی زکوۃ کے لیے چاندی کو معیار بنایا جائے یعنی اتنی نقدی پر زکوۃ لاگو کی جائے جس سے ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم چھبیس یا ستائیس ہزار نقدی پر زکوۃ وصول کی جائے کیونکہ اتنی مالیت سے ساڑھے باون تولے چاندی خریدی جا سکتی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ سونے اور چاندی کا نصاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے اس میں قطعی طور پر رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں البتہ نقدی کا نصاب چاندی کے مطابق مقرر کیا جائے ، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
1 ہمارے ہاں بر صغیر میں نو ٹوں کے اجراء سے پہلے چاندی کا روپیہ رائج تھا لہٰذا چاندی کو بنیاد بنا کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے باون تولے چاندی کی قیمت نکال لی جائے ۔ اس کی تائید اس امر سے بھی ہو تی ہے کہ آج کل سعودی عرب میں کاغذی نوٹوں کو ورقہ کہا جا تا ہے اور یہی لفظ چاندی کے لیے استعمال ہو تا ہے۔
2 غرباء اور مساکین کا فائدہ اسی میں ہے کہ چاندی کو معیار بنایا جائے تاکہ تھوڑی مالیت پر زکوۃ وصول کر کے ان سے تعاون کیا جائے ، اگر سو نے کو معیار بنایا جائے تو کم از کم ساڑھے چار لاکھ نقدی پر زکوۃ لاگو ہو گی ، اتنی مالیت والے حضرات ہمارے معاشرہ میں بہت کم ہوں گے۔
3 چاندی کو نقد روپیہ کے لیے نصاب قرار دینا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ مبادا اللہ کا حق ہمارے ذمے رہ جائے لہٰذا اس اہم دینی فریضہ میں ہر ممکن احتیاط لازم ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج کل کوئی ملک بھی سو نے کو بنیاد بنا کر نوٹ نہیں چھاپتا، غالباً اسی لیے کئی ممالک افراط زر کا شکار ہو تے ہیں، ہر ملک دھڑا دھڑ نوٹ چھاپے جا رہا ہے ، خواہ اس کے ہاں سونے کے ذخائر نہ ہوں ۔ بہر حال چاندی کو معیار بنایا جا نا زیادہ مناسب ہے، یہ تشخیص ہر مقام پر ہر دفعہ خود کرنا ہو گی کیونکہ چاندی کا بھاؤ بھی بدلتا رہتا ہے، اگر چاندی کا بھاؤ ایک ہزار روپے فی تولہ ہو تو کم از کم ساڑھے باون ہزار روپے پر زکوۃ لا گو ہو گی ، اس سے کم رقم پر زکوۃ دینا ضروری نہیں ، انسان کے پاس جتنی نقدی ہو اس میں سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے ، اس کا حساب پورا پورا کرنا چاہیے، اندازے سے کام نہ چلایا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب