سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175) اچانک مرنا

  • 20436
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5119

سوال

(175) اچانک مرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض دفعہ کوئی شخص اچانک مر جاتا ہے مثلاً ٹرین یا بس کے ٹکرانے یا مکان کو آگ لگ جانے یا کسی حادثے کی بنا پر ایسا ہو جاتا ہے، اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مختلف حالات و ظروف کی وجہ سے اچانک موت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات قسم کی اموات سے پناہ مانگا کرتے تھے، ناگہانی موت، سانپ کے ڈس جانے، کسی درندے کے چیر پھاڑ کرنے، آگ لگنے، غرق ہونے ، کسی چیز کے گرنے، کسی چیز پر گرنے اور میدان جنگ سے بھاگتے ہوئے موت آنے سے پناہ مانگتے تھے۔[1]

اس حدیث میں ناگہانی موت کا بھی ذکر ہے ، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگتے تھے کیونکہ ایسے حالات میں انسان ضروری وصیت نہیں کر سکتا، اپنے قرضوں کی ادائیگی نہیں کر پاتا اور نہ ہی گناہوں سے توبہ کرنے کی مہلت ملتی ہے، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اچانک موت مومن کے لئے باعث رحمت اور بدکار کے لئے موجب افسوس ہے۔‘‘ [2]

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اچانک موت ناراضی کی پکڑ ہے۔‘‘ [3]

اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔[4]

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ناگہانی موت کافر کے لئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے ایک بد ترین پکڑ ہے کیونکہ اس کی تمام عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزری ہوتی ہے، اچانک موت آنے سے اس کی توبہ کا جو امکان ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے ، اس کے برعکس جب انسان بیمار ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھتا ہے ، ایسے حالات میں مرنے سے پہلے اصلاح عقائد اور درستگی اعمال کا موقع ملتا ہے جو اچانک موت سے ختم ہو جاتا ہے لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کےاطاعت گزار ہوتے ہیں وہ ہر وقت موت کےلئے تیار رہتے ہیں اس لئے ان کی اچانک موت رفع در جات کا ذریعہ بنتی ہے۔ مذکورہ بالا مختلف احادیث میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ موت کا اچانک آنا۔‘‘[5]

پھر انہوں نے ایک حدیث کو ذکر کیا ہے ، جس میں ایک شخص کی والدہ کے اچانک مرنے کا ذکر ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی۔[6]

اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ مومن کے لئے ناگہانی موت نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس ناگہانی موت کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا: البتہ جسے اچانک موت آجائے اس کی اولاد کو چاہیے کہ صدقہ و خیرات کر کے اس کی تلافی کرے۔ ( واللہ اعلم)


[1] مسند أحمد ص ۱۷۱ ج۲۔

[2] مسند أحمد ص ۱۳۷ج۶۔

[3] سنن أبي داؤد ، الجنائز : ۳۱۱۰۔

[4] مسند أحمد ص ۴۲۴ج۳۔ 

[5] صحیح البخاري، الجنائز باب ۹۵۔

[6] صحیح البخاري، الجنائز : ۱۳۸۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:174

محدث فتویٰ

تبصرے