السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض اوقات کسی جرم کی تحقیق کرنے کی غرض سے قبر کشائی کی ضرورت پڑتی ہے ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں کچھ اہل علم اسے اچھا خیال نہیں کرتے ، اس کے متعلق قرآن و حدیث کے مطابق وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض اہل علم حضرات کا موقف ہے کہ اگر میت کو غسل دیئے بغیر یا جنازہ پڑھے بغیر دفن کیا گیا ہو تو اسے غسل دینے یا جنازہ پڑھنے کے لئے قبر سے نکالا جا سکتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ ان کی تردید کرتے ہوئے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ کیا کسی بھی ضرورت کے پیش نظر میت کو قبر اور لحد سے نکالا جا سکتا ہے؟[1]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ میت کو مذکورہ بالا دو اسباب کے علاوہ اگر ضرورت ہو تو قبر سے نکالنے میں چنداں حرج نہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے دو احادیث ذکر کی ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کو قبر میں ڈالا جا چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے حکم سے اسے قبر سے نکالا گیا، آپ نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا لعاب دھن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا قمیص پہنایا، ویسے تو اس کی وجہ اللہ بہتر جانتا ہے البتہ اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ اپنی قمیص دی تھی ( شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس احسان کا بدلہ چکایا ہو۔)[2]
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ نے اس کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو مسلمان تھا اس کی حوصلہ افزائی کی تھی ، اس حدیث میں میت کو دفن کرنے کے بعد نکالنے کا بیان ہے جو قبر کشائی کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس لئے کسی شرعی عذر کی وجہ سے میت کی قبر کشائی کی جا سکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری حدیث جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، میں فرماتے ہیں:
’’ میرے والد کے ہمراہ قبر میں ایک اور شہید بھی دفن کیا گیا تھا لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہو رہا تھا، میں نے اس کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کر دی۔‘‘[3] اس حدیث کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے والد کی قبر کشائی کی اور اسے نکال کر دوسری قبر میں دفن کیا ، اس بناء پر کسی جرم کی تحقیق کے لئے قبر کشائی کی جا سکتی ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري ، الجنائز ، باب ۷۷۔
[2] صحیح البخاري، الجنائز : ۱۳۵۰۔
[3] صحیح البخاري، الجنائز: ۱۳۵۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب