سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) قریب المرگ کے پاس سورۃ یٰسین پڑھنا

  • 20418
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 640

سوال

(157) قریب المرگ کے پاس سورۃ یٰسین پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری خالہ کافی دنوں سے بے ہوش ہیں، ہم بہت پریشان ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس سورۃ یٰسین کی تلاوت کی جائے تاکہ ان پر آسانی ہو اور ان کی روح جلد پرواز کر جائے، اس سلسلہ میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی ، اس سلسلہ میں ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ دعاؤں کا سلسلہ تیز کر دینا چاہیے کہ وہ قریب الموت پر آسانی فرمائے۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ قریب الموت کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو۔‘‘[1]

اس تلقین کے دو مفہو م ہیں: 1  اس کے پاس بکثرت لا الٰہ الا اللہ کا ورد کیا جائے ممکن ہے کہ وہ دیکھ کر خود بھی لا الٰہ الا اللہ پڑھے اور قیامت کے دن کامیابی اس کا مقدر بن جائے، جیساکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس شخص کا آخری کلام ’’لا الٰہ الا اللہ ‘‘ ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘[2]

2۔  اسے لا الٰہ الا اللہ پڑھنے کے متعلق کہاجائے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت فرمائی ، آپ نے اسے فرمایا: ’’ اے ماموں! تم ’’ لا الٰہ الا اللہ ‘‘ پڑھو۔ ‘‘[3]

یہ صورت اس وقت ہو گی جب قریب الموت انسان کے ہوش و حواس صحیح ہوں، اگر وہ دماغی اعتبار سے صحیح نہیں ہے تو اسے اس قسم کی تلقین پر زور نہ دیا جائے، مبادا آخری وقت کوئی ایسی بات کہہ دے جو آخرت کے اعتبار سے اس کے حق میں بہتر نہ ہو۔ باقی رہا اس کے پاس سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنا تاکہ اس کی جان جلدی نکل جائے تو یہ عمل صحیح نہیں ہے۔ اگرچہ ایک روایت میں ہے کہ تم اپنے مرنے والوں کے پاس سورۃ یٰسین پڑھا کرو۔ [4]

لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح نہیں جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ [5]  (واللہ اعلم)


[1] صحیح مسلم، الجنائز: ۹۱۶۔

[2] سنن أبي داؤد ، الجنائز : ۳۱۱۶۔

[3] مسند أحمد ص ۱۵۲ ج۳۔

[4] سنن أبي داؤد ، الجنائز : ۶۸۳۔

[5] ضعیف أبي داؤد : ۶۸۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:163

محدث فتویٰ

تبصرے