سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) نماز عید سے پہلے کے آداب

  • 20405
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 824

سوال

(144) نماز عید سے پہلے کے آداب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز عید سے پہلے کے آداب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز عید سے پہلے چند آداب حسب ذیل ہیں۔

زیب و زینت اختیار کرنا

خوشی کے موقع پر اچھے کپڑےزیب تن کرنا مستحسن امر ہے بلکہ غسل کرنا اور خوشبو لگانا بھی مستحب ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بازار میں ایک بہترین جبہ فروخت ہو رہا تھا تو آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کر تے ہوئے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ ! آ پ اسے خرید لیں تاکہ عید اور وفد کی آمد کے موقع پر زیب تن کیا کریں۔ ‘‘[1]حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن سرخ رنگ کا دھاری دار جوڑا زیب تن فرمایا کر تے تھے۔ [2]

عید الفطر سے پہلے کچھ کھانا

عید الفطر کی نماز سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھانا مسنون عمل ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن اس وقت تک نہیں نکلتے تھے جب تک چند کھجوریں تناول نہ فرما لیتے۔[3] اگر کھجوریں دستیاب نہ ہو ں تو کوئی بھی میٹھی چیز کھائی جا سکتی ہے البتہ عید الاضحی کے دن جب تک نماز نہ پڑھ لیتے کوئی چیز تناول نہیں فرما تے تھے۔ [4] ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی کی کلیجی اور جگر وغیرہ کھایا کر تے تھے۔ [5]

عید گاہ کی طرف پیدل جانا

عید گاہ کی طرف پیدل جانا چاہیے، بوقت ضرورت سوار ہو کر جانا بھی جائز ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ عید گاہ کی طرف پیدل جانا مسنون عمل ہے۔[6] امام ترمذی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس حدیث پر اکثر اہل علم کا عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عید گاہ کی طرف پیدل جانا کم از کم مستحب عمل ہے اگرچہ کسی معقول عذر کی وجہ سے سواری استعمال کی جا سکتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جا تے اور پیدل ہی وہاں سے واپس آ تے تھے۔[7]


[1]  بخاری، العیدین: ۹۴۷۔

[2] سلسلة الاحادیث الصحیحه: ۱۲۷۹۔

[3] بخاری، العیدین:۹۵۳۔

[4] ترمذی ، العیدین: ۵۴۲۔

[5] بیہقی: ص۲۸۳، ج۳۔

[6] ترمذی، العیدین: ۵۳۰۔

[7] ابن ماجه : اقامة الصلوة:۱۲۹۵۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:155

محدث فتویٰ

تبصرے