سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(131) مرزائی کا مسجد میں آنا

  • 20392
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 628

سوال

(131) مرزائی کا مسجد میں آنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا کسی مرزائی کو وعظ و نصیحت سنا نے کے لیے مسجد میں لایا جا سکتاہے ؟ اسی طرح جمعہ مبارک کے دن اسے خطبہ سنانے کے لیے مسجد میں لانا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے ، اس سے مقصود اسے راہ راست پر لانا ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کسی بھی غیر مسلم کو وعظ و نصیحت کے لیے مسجد میں آ نے کی دعوت دی جا سکتی ہے ، ممکن ہے کہ اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے ، قرآن کریم میں اس کا واضح اشارہ موجود ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر مشر کوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو تا آنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دو۔ ‘‘[1]

اس مقام پر مشرک کو پناہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی باتیں سن لے اور اسے اسلام کو سمجھنے کا موقع مل جائے ، اسی طرح اگر مرزائی مسجد میں آنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے موقع دینا چاہیے اور موقع کی مناسبت سے ایسا درس دیا جائے جس سے وہ مطمئن ہو سکے، جس آیت کریمہ میں مشرکین کو پلید کہا گیا ہے وہ عقائد و اعمال کی نجاست کی وجہ سے انہیں نجس قرار دیا گیا ہے، ویسے بھی وہاں مسجد حرام میں داخلے کی پابندی کا ذکر ہے ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’مشرک انسان کا مسجد میں داخل ہونا ۔‘‘[2]

پھر انھوں نے اس عنوان کو ثابت کر نے کے لیے ایک حدیث پیش کی ہے، جسے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مختصر سا دستہ نجد کی طرف روانہ فرمایا وہ لوگ قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے جسے ثمامہ بن اثال کہا جا تا تھا، اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ ‘‘[3]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو بھی مسجد میں ٹھہرایا تھا، نیز ایک مرتبہ وفد ثقیاف ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ لوگ مشرک تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا تھا۔[4]بہر حال اگر وعظ و نصیحت اور تبلیغ مقصود ہو تو مرزائی کو خطبہ جمعہ سننے کی دعوت دی جا سکتی ہے ، اور اس کا مسجد میں آنا اور خطبہ جمعہ سننا قابل مواخذہ نہیں ہے۔ (واللہ اعلم )


[1] التوبه: ۶۔

[2] صحیح بخاری، الصلوة باب: ۸۲۔

[3] صحیح بخاری، الصلوة: ۴۶۹۔

[4] مسند امام احمد ، ص ۳۴۳، ج ۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:152

محدث فتویٰ

تبصرے